• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 179042

    عنوان: مكان كی تعمیر ادھوری ہے كچھ رقم ٹھیكیدار كو دیدی كچھ باقی ہے‏، اسی دوران سال مكمل ہوگیا تو اب زكاۃ كس طرح ادا كی جائے گی؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان شرع متین درج ذیل مسئلے کے بارے میں: ذاتی رہائش کے لیے مکان تعمیر کرانے والے نے ٹھیکیدار کو آدھی رقم دیدی اور ابھی آدھی باقی ہے اور تعمیر بھی ادھوری ہے اور اسی دوران زکوة کا سال مکمل ہوگیا تو ایسی صورت میں مکان تعمیر کرانے والا، مابقیہ رقم دین مان کر مال زکوة سے منہا کرے گا یا نہیں؟ مدلل (صریح دلیل یا کم از کم فقہی تخریج پر مشتمل) جواب عنایت فرماکر ممنون فرمائیں۔

    جواب نمبر: 179042

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:784-115T/N=9/1441

    سوال میں جو معاملہ ذکر کیا گیا ہے، یہ شریعت کی اصطلاح میں استصناع کہلاتا ہے، یعنی: آرڈر پر کوئی سامان ، مکان یا بلڈنگ وغیرہ تیار کرانا،اور یہ معاملہ مفتی بہ قول کے مطابق بیع ہوتا ہے، محض وعدہ بیع نہیں۔ اور اس میں آرڈر دینے والے پر دوسرے فریق (ٹھیکدار وغیرہ)کے لیے جو پیسہ واجب ہوتا ہے، وہ مبیع (تیار کی جانے والی چیز: مکان یا بلڈنگ وغیرہ)کا ثمن ہی ہوتا ہے۔ اور مبیع کا (ادھار)ثمن فقہا کی تصریحات کے مطابق، دین کی وہ قسم ہے، جو مال زکوة سے منہا کی جاتی ہے (فتاوی عالمگیری، ۱: ۱۷۲، مطبوعہ: مصر، فتاوی خانیہ بر ہامش ہندیہ، ۱: ۲۵۴، مطبوعہ: مصر، فتاوی تاتار خانیہ،۳: ۲۳۱، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند، حاشیہ چلپی بر تبیین الحقائق، ۱: ۲۵۴، مطبوعہ: پاکستان، غایة البیان وغیرہ)؛ لیکن چوں کہ استصناع میں آرڈر پر تیار کی جانے والی چیز ، مشتری کی ملک اُس وقت ہوتی ہے جب وہ تیار کرکے مشتری کے سپرد کردی جائے، اُس سے پہلے نہیں۔ اور کسی بھی دین کا ذمہ میں استقرار اُس وقت ہوتا ہے جب اُس کے مقابل عوض پر قبضہ کرلیا جائے، نیز استصناع ابتداء ً جارہ اور انتہاء ً بیع ہوتا ہے اور اجارے میں اجرت منافع کی وصول یابی پر دین ہوتی ہے، اُس سے پہلے نہیں؛ لہٰذا استصناع میں جو پیسہ آرڈر دینے والے کے ذمہ باقی ہو، وہ عام دیون سے مختلف ہوگا اور وہ مال زکوة سے منہا نہیں کیا جائے گا، پس صورت مسئولہ میں جو پیسہ ابھی مکان تعمیر کرانے والے نے ٹھیکدار کو ادا نہیں کیا ہے، وہ مال زکوة سے منہا نہیں کیا جائے گا۔

    أما الکلام في دین العباد فنقول: إنما یمنع وجوب الزکاة ؛ لأن ملک المدیون في القدر المشغول بالدین ناقص، ألا تری أنہ یستحق أخذہ من غیر قضاء ولا رضاء کأنہ في یدہ غصب أو ودیعة، ولھذا حلت لہ الصدقة ولا یجب علیہ الحج، والملک الناقص لا یصح سببا لوجوب الزکاة (الفتاوی التاتار خانیة، کتاب الزکاة، الفصل العاشر في بیان ما یمنع وجوب الزکاة، ۳: ۲۳۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    والباحث في کتب الفقہ یجد أن أسباب وجوب الدین عدیدة متنوعة، غیر أنہ یمکن حصرھا في تسعة أسباب؛ أحدھا الالتزام بالمال سواء أکان في عقد یتم بین طرفین کالبیع والسلم والقرض والإجارة والزواج والطلاق بالمال والحوالة والکفالة بالمال والاستصناع ونحوھا الخ علی أن جمیع الدیون التي تثبت في عقود المعاوضات المالیة لا تستقر في الذمة بعد لزومھا إلا بقبض البدل المقابل لھا الخ (الموسوعة الفقہیة، ۲۱: ۱۱۰، ط: الکویت)۔

    قال القاضي جلال الدین البلقیني: وجمیع الدیون التي في الذمة بعد لزومھا وقبض المقابل لھا مستقرة إلا دینا واحداً ھو دین السلم؛ فإنہ وإن کان لازماً فھو غیر مستقر، وإنما کان غیر مستقر؛ لأنہ بصدد أن یطرأ انقطاع المسلم فیہ فینفسخ العقد، فمعنی الاستقرار في الدیون اللازمة من الجانبین الأمن من فسخ العقد بسبب تعذر حصول الدین المذکور لعدم وجود جنسہ وامتناع الاعتیاض عنہ، وذلک مخصوص بدین السلم دون بقیة الدیون، وأما دین الثمن بعد قبض المبیع فإنہ أمن فیہ الفسخ المذکور وإن تعذر حصولہ بانقطاع جنسہ جاز الاعتیاض عنہ وکذا الفسخ بسبب رد بعیب أو إقالة أو تحالف اھ (الأشباہ والنظائر للسیوطي، الکتاب الرابع في أحکام یکثر دورھا ویقبح بالفقیہ جھلھا، القول في الملک، المسألة الخامسة في الاستقرار، ص: ۳۲۶، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت)۔

    وتستقر الأجرة في الإجارة بالاستیفاء وبقبض العین المستأجرة وإمساکھا حتی مضت مدة الإجارة الخ (المصدر السابق، ص: ۳۲۵)۔

    وأما کون الاستقرار شرط وجوب الزکاة فلقولھم في الأجرة: لا یلزمہ أن یخرج إلا زکاة ما استقر (المصدر السابق، القول في الدین، الحکم الخامس، ص: ۳۳۲)۔

    واعلم أن الأجر لا یلزم بالعقد فلا یجب تسلیمہ بہ؛ بل بتعجیلہ أو شرطہ في الإجارة المنجزة … أو الاستیفاء للمنفعة أو تمکنہ منہ الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الإجارة، ۹: ۱۳، ۱۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    قولہ: ”لا یلزم بہ بالعقد“: أي: لا یملک بہ کما عبر في الکنز؛ لأن العقد وقع علی المنفعة، وھي تحدث شیئاً فشیئاً، وشأن البدل أن یکون مقابلاً للمبدل، وحیث لا یمکن استیفاوٴھا حالاً لا یلزم بدلھا حالاً إلا إذا شرطہ الخ (رد المحتار)۔

    ویسلم الثمن أولاً في بیع سلعة بدنانیر ودراھم إن أحضر البائع السلعة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب البیوع، قبیل باب خیار الشرط، ۷: ۹۳)۔

    إنما بطل - الاستصناع- بموتہ -الصانع-لشبہہ بالإجارة، وفي الذخیرة: ھو إجارة ابتداء بیع انتھاءً؛ لکن قبل التسلیم لا عند التسلیم (رد المحتار، کتاب البیوع، باب السلم، مطلب في الاستصناع، ۷: ۴۷۵)۔

    تخریجاً للثمن المقدم في الاستصناع علی الأجرة المقدمة أو ما اشترط تعجیلہ في الإجارة (فقہ البیوع، ۱: ۶۰۶، ط: دار المعارف، دیوبند)۔

    وفي التاترخانیة: ولا یجبر المستصنع علی إعطاء الدراھم وإن شرط تعجیلہ الخ (رد المحتار، کتاب البیوع، باب السلم، مطلب في الاستصناع، ۷: ۴۷۶)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند