• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 173868

    عنوان: مکاتب چلانے والی تنظیموں کو زکات کو دینا

    سوال: (۱) مکاتب امداد کے ذریعے سے چلاسکتے ہاں یا نہیں غریب لوگوں کے بچوں کو کفالت میں لیکرزکات اور صدقے کی رقم سے پڑھا سکتے (۲) کیا جن دیہاتوں اور جن علاقوں میں مکاتب نہیں ہیں اور وہاں کی عوام غریب ہیں تو ان عوام کو زکات اور صدقات دیکر ان سے رسید بناکر وہاں مکاتب قائم کرسکتے ہیں کیا؟

    جواب نمبر: 173868

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:135-62T/sn=3/1441

    (1) زکات کے مستحقین وہ فقرا اور مساکین ہیں جن کی ملکیت میں قدر نصاب یعنی 612 گرام 360 ملی گرام چاندی یا اس کی مالیت کے برابر نقد رقم یا حوائج اصلیہ سے زائد مال واثاثہ نہ ہو، اورنابالغ کے مستحق زکات ہونے کے لیے تو یہ بھی ضروری ہے کہ والد کے پاس مذکورہ بالا نصاب نہ ہو۔ جن مدرسوں میں مستحق زکات طلبہ کا قیام ہو اور ان کے کھانے پینے کا نظم من جانب مدرسہ ہو تو ان میں زکات کی رقم دینے اور ذمے داران کا اس رقم کو بچوں کو بہ طور وظیفہ دے کر بہ مد فیس واپس لینے کی گنجائش ہے؛ لیکن مکاتب میں چونکہ بچوں کے کھانے اور رہائش وغیرہ کا نظم نہیں ہوتا ؛ اس لیے مکتب کے جو کچھ تھوڑے بہت اخراجات ہیں ان کی تکمیل طلبہ کی فیس اور امداد وعطیہ کی رقم سے کی جانی چاہیے ، زکات کی رقم سے نہیں ، جو تنظیمیں مکاتب کے لیے زکات وصول کرتی ہیں انھیں زکات دینے کے بہ جائے اس سے زیادہ ضرورت کے مواقع پر زکات دینی چاہیے؛ باقی اگر کسی تنظیم کے بارے میں یقینی ذرائع سے معلوم ہوکہ وہ انتہائی غریب علاقوں میں مکاتب چلاتی ہیں اور یہ بھی معلوم ہو کہ زکات کی رقم وہ احتیاط سے شرعی اصولوں کی رعایت کرتے ہوئے خرچ کرتی ہیں تو انھیں فی نفسہ زکات دینے کی گنجائش ہے۔باب المصرف أی مصرف الزکاة والعشر، وأما خمس المعدن فمصرفہ کالغنائم (ہو فقیر، وہو من لہ أدنی شیء) أی دون نصاب أو قدر نصاب غیر نام مستغرق فی الحاجة.(ومسکین من لا شیء لہ) علی المذہب، - لقولہ تعالی أو مسکینا ذا متربة .(الدر المختار مع رد المحتار) 3/ 283،ط: زکریا،دیوبند)

     (2) زکات کی رقم مکاتب کی تعمیر یا اساتذہ کی تنخواہوں یا دفتری ضروریات میں صرف کرنا جائز نہیں ہے؛ہاں اگر مستحق زکات غریبوں کو زکات کی رقم تملیکاً دے دی جائے پھر وہ اپنی مرضی سے قیام مکاتب وغیرہ میں صرف کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، واضح رہے کہ مستحقین کو بھی یکمشت اتنی رقم دینا کہ وہ صاحب نصاب بن جائیں مکروہ ہے ؛ اس لیے یکمشت زیادہ رقم نہ دینی چاہیے؛ بلکہ تھوڑی تھوڑی دینی چاہیے ، ایک مرتبہ دی ہوئی رقم جب خرچ ہوجائے تو دوبارہ دے دے ۔

    ویشترط أن یکون الصرف (تملیکا) لا إباحة کما مرلایصرف إلی بناء نحومسجد إلخ (الدرالمختارمع الشامی3/291،ط: زکریا) ولایجوزأن یبنی بالزکاة المسجد، وکذا القناطروالسقایات، وإصلاح الطرقات، وکری الأنہاروالحج والجہاد وکل ما لا تملیک فیہ.(الہندیة1/ 188،زکریا،دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند