• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 170123

    عنوان: غیر اقامتی مدرسہ والوں کا زکوة، فطرہ وغیرہ وصول کرنے کا حکم

    سوال: زید ایک مدرسہ چلارہاہے ، لیکن اس مدرسے میں صرف صبح پڑھائی ہوتی تھی آٹھ بجے سے گیارہ بجے تک کوئی رہتانہیں ہے ، نہ کھانا پکاتاہے، زید اس مدرسے کے لیے چندہ وصول کرتاہے صدقہ فطرہ زکاة وغیرہ تو کیا اس مدرسے میں یہ پیسے لگ جائیں گے؟ بس ایک کمرہ بنایا ہے مدرسے کے نام پر اور زید خود ہی پڑھتاہے اس مدرسے میں تو کیا ایسے چندہ وصول کرنا صحیح ہے؟ گاؤں کے لوگوں نے حساب مانگا تو زید نے نہیں دیا تو گاؤں والوں نے انہیں نکال دیا تو کیا ایسے شخص کے یہاں کھانا پینا جائز ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 170123

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:784-661/N=9/1440

    شریعت میں زکوة، فطرہ اور دیگر صدقات واجبہ کے خاص مصارف متعین کیے گئے ہیں اور ان مصارف میں تملیک بنیادی چیز ہے، ان مدات کا پیسہ ہر کار خیر میں نہیں لگ سکتا اور صورت مسئولہ میں جب زید کے مدرسے (بلکہ مکتب)میں صرف مقامی بچے پڑھتے ہیں، دار الاقامہ نہیں ہے اور نہ ہی بچوں کے لیے کوئی طعام وغیرہ کا نظم ہے تو اس میں زکوة، فطرہ وغیرہ کا مصرف نہیں ہے؛ لہٰذا ایسے مدارس یا مکاتب والے جب زکوة فطرہ وصول کریں گے تو ظاہر ہے کہ وہ غیر مصارف میں لگائیں گے یا حیلے حوالے کریں گے ؛ اس لیے اس طرح کے مدارس یا مکاتب کو زکوة، فطرہ وغیرہ نہیں دینا چاہیے، صرف عطیہ وامداد کا پیسہ دینا چاہیے۔ گاوٴں والوں نے حساب نہ دینے پر زید کو نکال دیا، اچھا کیا، مدرسہ کی ایک ایک چیز کا صحیح حساب رکھنا ضروری ہے؛ تاکہ مدرسہ کے پیسے میں کوئی خرد برد وغیرہ نہ کی جاسکے۔

    قال اللہ تعالی: إنما الصدقت للفقراء والمساکین الآیة (سورة التوبة: ۶۰)، ولا إلی غني یملک قدر نصاب فارغ عن حاجتہ الأصلیة من أي مال کان الخ،……ولا إلی بنی ھاشم الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب المصرف، ۳: ۲۹۵-۲۹۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، یصرف المزکي إلی کلھم أو إلی بعضھم،…… ویشترط أن یکون الصرف تملیکا، …،لا یصرف إلی بناء نحو مسجد (المصدر السابق،، ص:۲۹۱)، قولہ:”نحو مسجد“:کبناء القناطر والسقایات وإصلاح الطرقات وکري الأنھار والحج والجھاد وکل ما لا تملیک فیہ۔ زیلعي (رد المحتار)، ومثلہ في مجمع الأنھر (کتاب الزکاة، ۱:۳۲۷،۳۲۸، ط:دار الکتب العلمیة، بیروت)، حیث قال:ولاتدفع الزکوة لبناء مسجد؛لأن التملیک شرط فیھا ولم یوجد، وکذا بناء القناطیر وإصلاح الطرقات وکري الأنھار والحج وکل ما لا تملیک فیہ اھ، یکرہ أن یحتال في صرف الزکاة إلی والدیہ المعسرین بأن تصدق بھا علی فقیر ثم صرفھا الفقیر إلیھما کما في القنیة، قال في شرح الوھبانیة: وھي شھیرة مذکورة في غالب الکتب (رد المحتار، کتاب الزکاة، باب المصرف، ۳: ۲۹۴)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند