• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 1483

    عنوان: تنگ دستی کی وجہ سے جانکنی کی نوبت آجائے تو کسی قدر چوری کی گنجائش ہے؟

    سوال:

    فرض کیجئے کہ ایک غریب آدمی ہے،اسے زکاةنہیں ملتی ہے۔ (ہما رے ملک میں تقسیم زکوة کا نظام درست نہیں ہے) وہ غر یب بے روزگارہے۔اسے اپنی بیوی اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کر نی ہے۔ وہ اپنی فیملی کی بھوک مٹا نے کے لئے چو ری کر تاہے۔اس صورت حال میں کیا سزامیں اس کاہا تھ کاٹاجا ئے گا یا نہیں؟ میر ے خیال میں اسے یہ سزا نہیں دی جائے گی،کیو نکہ یہ حکو مت کی ذمہ داری ہے کہ تمام لوگوں کو روزگار، غذا کے مساوی ذرائع اورمناسب تقسیم زکوة کا نظام مہیا کرے تاکہ ان کی ضروریات پوری ہوسکے۔ اگر ملک اپنا فرض پو را نہیں کر تا ہے تو اسے اس طرح کی سزا دینے کا بھی حق نہیں ہے۔

    جواب نمبر: 1483

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوى: 468/د = 463/د)

     

    اگر کوئی شخص غریب و محتاج ہے تو اس کے لیے زکاة، کی رقم لینا جائز ہے خواہ حکومت کی طرف سے قائم نظام زکاة سے اس کی مدد ہو، یا اہل ثروت مال دار لوگوں کے ذریعہ مدد ہو۔ آج وسائل معاش کے کثرت کی بنا پر آدمی اپنی واجبی ضرورت پورا کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ ذریعہ معاش اختیا رکرہی سکتا ہے اگر کوئی شخص اس قدر مجبور و تنگ دست ہے کہ اس کے پاس کوئی ذریعہ معاش بھی نہیں ہے تو ایسے شخص کی مدد کرنا اہل مال کی ذمہ داری ہوجاتی ہے، نہ کرنے پر وہ گنہ گار ہوں گ۔ جس کا پڑوسی بھوکا سورہا ہے اور اس نے اس کی خبر نہ لی تو ایسے شخص کو سخت وعید سنائی گئی ہے۔ اگر غریب محتاج فقر و فاقہ سے ایسا تنگ اور پریشان ہے کہ جانکنی کی نوبت آگئی تو ایسے شخص کے لیے اپنی جان بچانے کے لیے اتنی چیز استعمال کرلینا جس سے جان بچ چائے ضروری اور فرض ہے خواہ مردار کھاکر یا غیر آدمی کا مال لے کر جان بچائے، اس کو اضطرار کی حالت کہتے ہیں لیکن اس صورت میں صرف جان بچانے کی حد تک استعمال کرنے کی اجازت ہے اور غیر کا مال جو استعمال کرے گا اس کا ضمان اس کے ذمہ واجب ہوگا۔ ھکذا في الأشباہ والنظائر، و فتاویٰ رد المحتار۔ ایسے شخص کا چوری کرکے دوسرے کا مال جان بچانے کی حد تک استعمال کرنا بھی مباح ہوجاتا ہاے۔ رہا چوری کی سزا قطع ید (ہاتھ کاٹنا) تو حدود اللہ میں سے ہے، قاضی وقت اسلامی حکومت میں اس کے ثبوت شرعی کے بعد فیصلہ کرتا ہے اور نیابةً عن اللہ تعالیٰ اس حکم کو جاری کرتا ہے۔ نصاب سرقہ سے کم کم حالت اضطرار میں چوری کا مال لیا تو قطع ید کا حکم نہ ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند