• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 1607

    عنوان:

    حفاظت کی غرض سے بیوی کو گھر میں مقفل کرکے جانا؟

    سوال:

    1- عند ما يخرج عمران من البيت يقفل باب بيت زوجته من الخارجولايأتيها نسخة المفتاح والزوجة حامل و عاقلة و عالمة وشريفة و المنطقة مأمون.سبحان الله فكيف إذا صارت حاجة إضطرارية للخروج من البيت .

    2- لما يتصل بها أبوهابالتليفون لصلة الارحام أكثر الاوقات هو لا يسمح لها أن تتحدث مع والدها.

    3- وكذالك إذا زارها أبوها من 100 كيلو متر لايسمح له الدخول في البيت.

    4- إذا صارتالخلوة بين زوجتها و أبوه لدقائق بدون القصد فيعترض عليها و هو محرم.

    5- و مرةواحدة أراد أن يرفعها من العنق- فالرجاء منكم أن تكتبوا له النصائح و هو رجل درس منمدرسة طارق جميل

    جواب نمبر: 1607

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوى:  472/م = 465/م)

     

    اگر بیوی گھر پر تنہا رہتی ہے اور شوہر (عمران) اپنے اہل و متاع کی حفاظت کی غرض سے باہر سے تالا بند کرکے چلاجاتا ہے تو شرعاً اس میں مضائقہ نہیں بلکہ ایسا کرنا بہتر ہے اگرچہ علاقہ پرامن ہو لیکن یہ خیال ضروری ہے کہ بیوی کو اس کی وجہ سے گھٹن اور حبس محسوس نہ ہو یعنی جس کمرہ میں رہتی ہے وہ کمرہ، بیت الخلاء، غسل خانہ اور صحن وغیرہ کھلا ہوا ہونا چاہیے، ان کو بند کردینا درست نہیں، اور عورت کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: عورتوں کے بارے میں خیر کی وصیت قبول کرو (مشکوٰة) یعنی عورتوں پر ناروا سختی اورظلم کرنا جائز نہیں ان کے ساتھ نرمی اور اچھا برتاوٴ کرنا چایہے۔ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ: تم میں بہتر وہ شخص ہے جو اپنے گھر والے کے حق میں بہتر ہو (مشکوة) بیوی کو اپنے والد سے بات کرنے کی اجازت نہ دینا اور اس کے والد کو گھر آنے سے روکنا شرعاً و اخلاقاً درست نہیں، فقہاء نے تو یہاں تک صراحت کی ہے کہ اگر بیوی کے والدین بوجہ ضعف یا مرض یا دوری وغیرہ اگر از خود آنے کی طاقت نہیں رکھتے تو عورت کو ہفتہ میں ایک بار اپنے والدین کے گھر جانے اور ان کی زیارت کرنے کی اجازت ہے ولا یمنعھا من الخروج إلی الوالدین في کل جمعة إن لم یقدرا علی إتیانھا (در مختار)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند