عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس
سوال نمبر: 166707
جواب نمبر: 166707
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:234-24T/N=4/1440
گھر ، دکان یا مسجد کہیں بھی کسی جاندار کی ایسی تصویر لگانا یا لٹکانا ناجائز ہے کہ اگر تصویر زمین پر ہو اور کھڑے ہوکر اس پر نظر ڈالی جائے تو چہرہ وغیرہ صاف طور پر ظاہر ونمایاں ہو اور ایسی تصویر جہاں لگی ہو یا لٹکائی گئی ہو، وہاں رحمت کے فرشتے بھی نہیں آتے۔ اور جہاں نماز باجماعت ادا کی جاتی ہو اگرچہ وہ مسجد نہ ہو؛ بلکہ صرف مصلی (جماعت خانہ) ہو، وہاں ایسی تصویریں لگانا اور بھی سخت ناجائز ہے؛ کیوں کہ تصویر نمازی کے سامنے، دائیں، بائیں یا اوپر ہو تو نماز مکروہ ہوتی ہے؛ بلکہ اگر پیچھے ہو تب بھی مکروہ ہے اگرچہ اس کی کراہت کچھ کم ہے؛ اس لیے ذمہ داران مصلی کو چاہیے کہ جہاں نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے، وہاں سے یہ سب بوڑد ہٹادیں؛ تاکہ لوگوں کی نمازوں میں کوئی کراہت بھی نہ ہو اور یہ تصویریں رحمت کے فرشتوں کی آمد سے مانع بھی نہ ہوں ۔
عن أبي طلحةقال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا تدخل الملائکة بیتا فیہ کلب ولاتصاویر، متفق علیہ (مشکاة المصابیح، باب التصاویر، الفصل الأول، ص:۲۶۶، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، و- یکرہ- أن یکون فوق رأسہ أو بین یدیہ أو بحذائہ یمنة أو یسرة أو محل سجودہ تمثال ولو في وسادة منصوبة لا مفروشة واختلف فیما إذا کان التمثال خلفہ، والأظھر الکراھة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب مایفسد الصلاة وما یکرہ فیھا، ۲: ۴۱۶، ۴۱۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، التمثال خاص بمثال ذي الروح (رد المحتا، ۲: ۴۱۶)، قولہ: ”تمثال“: أي: مرسوم في جدار أو غیرہ أو موضوع أو معلق کما في المنیة وشرحھا (رد المحتار، ۲: ۴۱۷)، قولہ: ”والأظھر الکراھة“: لکنھا فیہ أیسر؛ لأنہ لا تعظیم فیہ ولا تشبہ، معراج۔ وفي البحر قالوا: وأشدھا کراھة ما یکون علی القبلة أمام المصلي، ثم ما یکون فوق رأسہ، ثم مایکون عن یمینہ ویسارہ علی الحائط، ثم ما یکون خلفہ علی الحائط أو الستر اھ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند