• عقائد و ایمانیات >> تقلید ائمہ ومسالک

    سوال نمبر: 7538

    عنوان:

    اگر ذاکر نائک غیر مقلد نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چاروں اماموں نے کہا ہے کہ اگر تم کو میرا کوئی بھی فتوی سنت کے خلاف ملے تو اس کو رد کردو۔ پہلے حدیث کی کتابیں جمع نہیں کی گئی تھیں اس لیے کسی نے یہ موازنہ نہیں کیا کہ کون سی حدیث زیادہ مضبوط ہے اور کون سی زیادہ کمزور، کیوں کہ انسان بلا شبہ قوی حدیث کی طرف جاتا ہے۔ یہی بات ذاکر نائک کہتے ہیں کہ میں اماموں کی بات قبول کرتا ہوں اور ان کا احترام کرتا ہوں اور شافعی اور حنفی کی اقتداء کرتا ہوں، مگر اپنے ساتھ کسی کا لیبل (جیسے حنفی ، شافعی) نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ امام صاحب نے بذات خود کہاہے کہ اگر تم میرا کوئی فتوی سنت کے خلاف پاؤ تو اس کو ردکردو۔ اس لیے اگر فقہ حنفی میں کوئی حدیث ضعیف ہو تو کیا ہم شوافع کی قوی حدیث کی اقتدا کرسکتے ہیں؟ کیا ان کا(ذاکر نائک کا) کہنا غلط ہے؟

    سوال:

    اگر ذاکر نائک غیر مقلد نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چاروں اماموں نے کہا ہے کہ اگر تم کو میرا کوئی بھی فتوی سنت کے خلاف ملے تو اس کو رد کردو۔ پہلے حدیث کی کتابیں جمع نہیں کی گئی تھیں اس لیے کسی نے یہ موازنہ نہیں کیا کہ کون سی حدیث زیادہ مضبوط ہے اور کون سی زیادہ کمزور، کیوں کہ انسان بلا شبہ قوی حدیث کی طرف جاتا ہے۔ یہی بات ذاکر نائک کہتے ہیں کہ میں اماموں کی بات قبول کرتا ہوں اور ان کا احترام کرتا ہوں اور شافعی اور حنفی کی اقتداء کرتا ہوں، مگر اپنے ساتھ کسی کا لیبل (جیسے حنفی ، شافعی) نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ امام صاحب نے بذات خود کہاہے کہ اگر تم میرا کوئی فتوی سنت کے خلاف پاؤ تو اس کو ردکردو۔ اس لیے اگر فقہ حنفی میں کوئی حدیث ضعیف ہو تو کیا ہم شوافع کی قوی حدیث کی اقتدا کرسکتے ہیں؟ کیا ان کا(ذاکر نائک کا) کہنا غلط ہے؟

    جواب نمبر: 7538

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1335/ د= 80/ ک

     

    (۱) احادیث نبویہ کے ذخائر اور آیاتِ قرآنیہ کے مدلولات پر نظر رکھنے کے ساتھ ان سے استخراجِ مسائل کے لیے کچھ اصول وقواعد مقرر کیے جاتے ہیں جیسا کہ ائمہ اربعہ میں ہرامام نے اپنے اصول مقرر فرمائے ہیں، انھیں اصول کے تحت مسائل کا استخراج کیا ہے، پھر شرقًا وغربًا ان کے مسالک کو تلقی بالقبول حاصل ہوئی ہے۔ اب اگر کوئی شخص کسی مسئلہ میں ایک امام کی پیروی کرے اور دوسرے مسئلہ میں دوسرے امام کی، اسے تلفیق کہتے ہیں جو باجماع امت حرام ہے، اگر موصوف غیرمقلد نہیں ہیں تو مذکورہ طریقہ اختیار کرنے کی وجہ سے تلفیق کی راہ پر گامزن ہیں، جو خود خطرناک راستہ ہونے کے ساتھ باجماعِ امت حرام ہے۔ صرف صحیح وضعیف احادیث سے ہی مسائل نہیں نکلتے بلکہ دوسری وجوہ بھی کسی حدیث کی تقویت کا باعث بنتے ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”فَاقْرَأُوْ مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآن“ اس سے قرآن پاک کے کسی بھی جز کا نماز میں پڑھنا فرض ہوا، جس میں سورہٴ فاتحہ کی تخصیص نہیں کی گئی لیکن حدیث میں سورہٴ فاتحہ کے بغیر نماز پوری نہ ہونے کی بات فرمائی گئی ہے، تو اب ایسا طریقہ اختیار کرنا ضروری ہوگا جس سے قرآن کا اطلاق بے اثر نہ ہو اور حدیث پر بھی عمل ہوجائے لہٰذا مطلق قرأت قرآن تو فرض ہوگی اور سورہٴ فاتحہ کا پڑھنا واجب قرار دیا گیا۔ اسی طرح حکم قرآنی ہے ”وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہ واَنْصِتُوْا“ جس سے قرأت قرآن کے وقت استماع واِنصات کا حکم ہے، اگر ”لا صلاةَ لمن لم یقرأ بفاتحة الکتاب الحدیث“ کی بنا پر مقتدی کو سورہٴ فاتحہ پڑھنے کا حکم کیا جائے تو ”وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہ واَنْصِتُوْا“ پر عمل نہ ہوسکے گا، لہٰذا جہری نماز میں مقتدی کے ذمہ استماع اور سری نماز میں اِنصات واجب ہوا۔ اور مقتدی کے ذمہ قرأتِ سورہٴ فاتحہ ضروری نہیں ہوئی کیونکہ ضروری ٹھہرانے کی صورت میں استماع وانصات حکم قرآنی پر عمل متروک ہوجائے گا، اس معنی کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ”من کان لہ إمام فقراء ة الإمام لہ قرأة“ کہ امام کی قرأت مقتدی کی قرأت کی طرف سے کافی ہوجائے گی۔ اب اگر کوئی ناواقف شخص کہے کہ ”لا صلاة إلا بفاتحة الکتاب“ والی روایت زیادہ قوی ہے ”من کان لہ إمام فقراء ة الإمام لہ قرا ء ة“ کی روایت کم قوی ہے، لہٰذا دوسری کو چھوڑدیا جائے اور امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک صحیح نہیں ہے کیونکہ ان کا مستدل کمزور حدیث ہے، تو یہ اس شخص کی بہت بڑی غلطی اور استخراج مسائل کے اصول وضوابط سے ناواقفیت ہوگی کیونکہ امام صاحب کا مستدل حدیث کے ساتھ ساتھ آیت قرآنی اور آثار صحابہ بھی ہیں۔

    (۲) نہیں۔ حکم پہلے لکھ دیا گیا کہ تلفیق کہلائے گی جو کہ حرام ہے۔ تفصیل کے لیے ”الکلام المفید فی اثبات التقلید“ موٴلفہ مولانا سرفراز خاں صفدر اور ”مطالعہ غیرمقلدیت “ مولفہ مولانا محمد امین صاحب صفدر یا ”دین کی باتیں اور تقلید کی ضرورت“ موٴلفہ مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند کا مطالعہ فرمائیں۔

    (۳) (الف) کسی حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کا حکم کس آیت یا حدیث سے ثابت ہے؟

    (ب) ایسا شخص جو براہ راست قرآن وحدیث سے استنباط کرتا ہے اور اس کے لیے اس نے اصول و قواعد مقرر کررکھے ہیں مجتہد کہلاتا ہے، ڈاکٹر صاحب موصوف اگر اس زمرہ میں ہیں تو ان کے استنباط وترجیح کے اصول موضوعہ ومقررہ کیا ہیں؟


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند