• عقائد و ایمانیات >> تقلید ائمہ ومسالک

    سوال نمبر: 6768

    عنوان:

    کیا صحیح بخاری قرآن شریف کے بعد سب سے معتبر کتاب ہے؟اگر ایسا ہے، تو پھر ہم ہندوستان میں صحیح بخاری کی بہت ساری احادیث کے بر خلاف کیوں عمل کرتے ہیں۔ بطور مثال، ہم انڈیا میں نماز میں رفع یدین نہیں کرتے ہیں، ہماری وتر کی نماز بخاری شریف میں مذکور طریقہ کے مطابق نہیں ہے، ہم ایک خاص مذہب کی اقتداء کرتے ہیں، اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی بھی صحابہ کسی خاص مسلک سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم انڈیا میں کچھ علماء کی رائے کی اقتداء کرتے ہیں بغیر ان کی آراء کے ذریعہ کی تحقیق کیے ہوئے۔کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ جس طریقہ سے ہم انڈیا میں نماز ادا کرتے ہیں وہ صحیح بخاری اور مسلم کی مستند احادیث سے کیوں نہیں ملتا ہے؟ ہم مسلم اوربخاری شریف کے بجائے ہدایہ کی اقتداء کیوں کرتے ہیں؟ اب میں بہت الجھن میں ہوں، کیوں کہ سعودی عربیہ میں ،مجھے اپنے سوالوں کے جوابات قرآن اور صحیح حدیث سے ملتیہیں، جس کو ان دنوں کوئی تصدیق کرسکتا ہے۔تاہم میں نے دارالافتاء کے جواب قرآن اور حدیث کے بجائے، بہشتی زیور یا دوسری کتابوں کے حوالہ سے دیکھے۔ کیا بہشتی زیور بخاری شریف اور مسلم شریف سے زیادہ مستند اورمعتبر ہے؟ برائے کرم میری الجھن کودورکرنے میں مدد کریں۔ میں نے یہ سوچنا شروع کردیا ہے کہ جس اسلام پر ہم انڈیا میں عمل کرتے ہیں وہ وہ نہیں ہے جس کو اللہ تبارک و تعالی نے اس زمین پر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ بھیجاہے۔

    سوال:

    گزشتہ چند سالوں سے میں سعودی عربیہ میں مقیم ہوں۔ میرے دادا اورنانا دونوں دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہیں۔ میرا سوال یہ ہے: (۱) کیا صحیح بخاری قرآن شریف کے بعد سب سے معتبر کتاب ہے؟اگر ایسا ہے، تو پھر ہم ہندوستان میں صحیح بخاری کی بہت ساری احادیث کے بر خلاف کیوں عمل کرتے ہیں۔ بطور مثال، ہم انڈیا میں نماز میں رفع یدین نہیں کرتے ہیں، ہماری وتر کی نماز بخاری شریف میں مذکور طریقہ کے مطابق نہیں ہے، ہم ایک خاص مذہب کی اقتداء کرتے ہیں، اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی بھی صحابہ کسی خاص مسلک سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم انڈیا میں کچھ علماء کی رائے کی اقتداء کرتے ہیں بغیر ان کی آراء کے ذریعہ کی تحقیق کیے ہوئے۔کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ جس طریقہ سے ہم انڈیا میں نماز ادا کرتے ہیں وہ صحیح بخاری اور مسلم کی مستند احادیث سے کیوں نہیں ملتا ہے؟ ہم مسلم اوربخاری شریف کے بجائے ہدایہ کی اقتداء کیوں کرتے ہیں؟ اب میں بہت الجھن میں ہوں، کیوں کہ سعودی عربیہ میں ،مجھے اپنے سوالوں کے جوابات قرآن اور صحیح حدیث سے ملتیہیں، جس کو ان دنوں کوئی تصدیق کرسکتا ہے۔تاہم میں نے دارالافتاء کے جواب قرآن اور حدیث کے بجائے، بہشتی زیور یا دوسری کتابوں کے حوالہ سے دیکھے۔ کیا بہشتی زیور بخاری شریف اور مسلم شریف سے زیادہ مستند اورمعتبر ہے؟ برائے کرم میری الجھن کودورکرنے میں مدد کریں۔ میں نے یہ سوچنا شروع کردیا ہے کہ جس اسلام پر ہم انڈیا میں عمل کرتے ہیں وہ وہ نہیں ہے جس کو اللہ تبارک و تعالی نے اس زمین پر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ بھیجاہے۔

    جواب نمبر: 6768

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1223=1057/ ب

     

    یہ بات بالکل درست ہے کہ قرآن کریم کے بعد سب سے مستند اور صحیح کتاب ?بخاری شریف? ہے،اس کتاب کی روایتیں بہت مضبوط ہیں، اورائمہ کرام بہ کثرت اس سے استدلال کرتے ہیں، البتہ اگر احناف کوئی روایت اس سے بھی مضبوط پاتے ہیں تو پھر بخاری شریف کو چھوڑدیتے ہیں، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ بخاری شریف سب سے صحیح ہے تو کیوں چھوڑا گیا، کیوں کہ حدیث کے اندر ضعف راویوں کی وجہ سے آتا ہے، اورامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ یہ امام بخاری سے بہت پہلے کے ہیں، اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور صحابہٴ کرام کے درمیان صرف ایک واسطہ اور کہیں کہیں براہِ راست روایت ہے، اس لیے بہت ممکن ہے کہ ایک حدیث امام صاحب کے یہاں مضبوط ہو اور امام بخاری رحمہ اللہ کے یہاں راوی بڑھ جانے کی وجہ سے ضعف آگیا ہو، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے نہ لی ہو۔ اور نماز میں رفع یدین کے بارے میں جو اختلاف ہے وہ محض اولیٰ اور غیر اولیٰ کا ہے، جواز اور عدمِ جواز کا اختلاف نہیں ہے، رہا وتر کا مسئلہ تو وتر جس طرح ہم لوگ پڑھتے ہیں وہ طریقہ بخاری شریف میں مذکور ہے، اس وقت کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو محض افترا پردازی کرتے ہیں، اور سب باتوں کو سامنے نہیں لاتے۔ رہی یہ بات کہ ہم لوگ ایک خاص مسلک کی اقتداء کرتے ہیں، تو اس میں کیا حرج ہے؟ صحابہٴ کرام کے دور میں خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے اور انھوں نے اپنے کانوں سے سب کچھ سنا اور اور اگر کوئی بات نہیں سنی تو دوسرے صحابہ سے پوچھ کر ان کی اقتدا کی،کیا یہی صحابہٴ کرام جب دوسرے ملکوں میں گئے تو ان کی اقتدا نہیں کی گئی؟ پھر اقتدا کرنے کا حکم قرآن میں موجود ہے: فَاسْئَلُوْا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ ہاں آپ کو یہ اختیار ہے کہ چاروں ائمہ میں سے آپ کسی خاص امام کی اقتدا کرسکتے ہیں، البتہ ایک مسلک اختیار کرلینے کے بعد کسی خاص مسئلے میں آسانی کے لیے دوسرے مسلک پر عمل کرنا جائز نہیں، یہ تو محض کھلواڑ بن جائے گا، او راگر کوئی ایسا شخص ہے جو تمام مسائل، اصولِ تخریج، اصولِ ترجیح اور تمام علومِ عربیہ پر مہارت رکھتا ہے تو اسے بھی اجازت ہے کہ وہ براہِ راست قرآن و حدیث سے مسائل نکالے، لیکن اس امت کی محرومی ہے کہ ان چاروں ائمہ کے علاوہ آج تک کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا، البتہ کچھ لوگ اپنے ہی منھ سے امام بن بیٹھے ہیں، ان کا اعتبار ہی کیا؟ ہم یہ بات بڑے وثوق سے کہتے ہیں کہ ائمہ کرام نے جو کتابوں میں لکھا ہے وہ ان کی رائے نہیں ہے بلکہ قرآن وحدیث میں بیان کردہ مسائل و اصول کی روشنی میں انھوں نے مسائل حل کیے ہیں، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ: ?اگر میرے قول کے خلاف کوئی ضعیف حدیث بھی مل جائے تو میرا قول چھوڑدینا? اگر آپ کے یہاں کچھ ایسے مسائل ہیں تو لکھ بھیجیں، ان شاء اللہ قرآن کی آیات اور احادیث سے مدلل جواب ارسال کیا جائے گا، جہاں تک ?ہدایة? کا سوال ہے تو اس میں کسی کی ذاتی رائے نہیں ہے بلکہ وہ فقہِ حنفی کے مسائل پر مشتمل ہے اور وہ فقہ بھی جو حدیث سے ماخوذ ہے۔ اسی طرح ?بہشتی زیور? ایک نہایت ہی معتبر اور باعمل عالم کی کتاب ہے، اس میں خود ان کی رائے نہیں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند