• عقائد و ایمانیات >> تقلید ائمہ ومسالک

    سوال نمبر: 146525

    عنوان: علامہ انور شاہ کشمیری پہ عمر ضائع کرنے کا الزام

    سوال: غیر مقلدین مولانا انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ کے اس واقعہ پہ اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی عمر ضائع کردی۔ ”میں حضرت مولانا انورشاہ کاشمیری رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں ایک دن نماز فجر کے وقت اندھیرے میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت سر پکڑے ہوئے بہت غمزدہ بیٹھے ہیں، میں نے پوچھا مزاج کیسا ہے؟ انھوں نے کہا ”ہاں ٹھیک ہی ہے میاں․․․ مزاج کیا پوچھتے ہو، عمر ضائع کردی“ میں نے عرض کیا حضرت! آپ کی ساری عمر علم کی خدمت میں اور دین کی ا شاعت میں گزری ہے ہزاروں آپ کے شاگرد علماء ہیں جو آپ سے مستفید ہوئے اور خدمت دین میں لگے ہوئے ہیں آپ کی عمر اگر ضائع ہوئی تو پھر کس کی عمر کام میں لگی؟ حضرت نے فرمایا: میں تمھیں صحیح کہتا ہوں کہ اپنی عمر کا ضائع کردی ، میں نے عرض کیا ”حضرت! اصل بات کیا ہے؟ فرمایا: ہماری عمر کا، ہماری تقریروں کا ہماری ساری کوششوں کا خلاصہ یہ رہا کہ دوسرے مسلکوں پر حنفی مسلک کی ترجیح قائم کردیں، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مسائل کے دلائل تلاش کریں۔“ (اقتباس، وحدت امت، ص ۱۵ از مفتی محمد شفیع رحمة اللہ علیہ) برائے مہربانی جواب دیں۔

    جواب نمبر: 146525

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 186-277/Sn=4/1438

     

    حضرت شاہ صاحب نور اللہ مرقدہ نے ”قادیان“ میں ”قادیانیت“ کے خلاف ایک جلسے کے موقع پر یہ بات فرمائی، حضرت نے جس موقع پر اور جس سیاق میں یہ بات کہی اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت کا مقصود اپنے کلام سے یہ تھا کہ ہم نے فروعی اختلافات میں ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے میں صرف کردی جب کہ ”اصولِ اسلام“ کی حفاظت اور غیروں کی طرف سے اس پر ہونے والے حملوں کے مقابلے میں کوئی خاطر خواہ محنت ہم نے نہیں کی جب کہ یہ زیادہ اہم ہے؛ کیوں کہ ان حملوں کی وجہ سے آدمی ”ایمان“ ہی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور بہ حیثیت ورثة الانبیاء ہم (علماء) کی ذمے داری بنتی ہے کہ اصولِ اسلام پر ہونے والے حملوں کے دفاع کو سب سے زیادہ ترجیح دیں؛ تاکہ لوگوں کا ایمان بچ جائے، رہے فروعی اختلافات تو ان کی وجہ سے کوئی اسلام سے خارج نہیں ہوتا؛ بلکہ اہل السنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ چاروں فقہی مسالک حق ہیں، کسی کو ”مُنکر“ نہیں کہا جاسکتا؛ اسی لیے احناف کی رائے کو (مثلاً) ترجیح دینے کے باوجود ہمیں یہ کہنا اور ماننا پڑتا ہے کہ ”ہذا صواب یحتمل الخطأ“ یعنی یہ درست ہے؛ لیکن خطا کے احتمال کے ساتھ۔ بہرحال حضرت شاہ صاحب نور اللہ مرقدہ کا مقصد ”حنفیت“ سے بدظنی یا اس کی ترجیح کو لغو کام ظاہر کرنا نہ تھا؛ بلکہ اصولِ اسلام کے دفاع کو اس پر ترجیح دینا تھا، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ جو اس واقعے کے راوی ہیں انھوں نے اس سے جو سمجھا (اور صحیح سمجھا) وہ یہی ہے، چناں چہ ”وحدت امت“ نامی رسالہ (جس کا سوال میں حوالہ دیا گیا ہے) میں حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے جو تشریح کی ہے اس کا حاصل وہی ہے جو اوپر تحریر کیا گیا، آپ اول تا آخر پورا رسالہ پڑھ ڈالیے، ان شاء اللہ شاہ صاحب رحمہ اللہ کے کلام پر جو اعتراض کیا جاتا ہے یا اس کا جو مطلب غیر مقلدین کشید کرتے ہیں، اس کی بالکلیہ نفی ہوجاتی ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند