• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 161517

    عنوان: کسی وقت کے ساتھ محدود كی گئی طلاق كا حكم؟

    سوال: سوال: ایک شخص نے اپنی بیوی سے جو میکہ میں تھی فون پر یوں کہا کہ : میری بہنوں کا کوئی فیصلہ ہونے تک تجھے طلاق ہے تو لٹکی ہی رہنا۔ اس کے بعد تھوڑے وقفہ کے بعد یوں کہا تو اگر میرے گھر آئی تو؟ تو کیا طلاق ایک متعین مدت ( بہنوں کا فیصلہ ہونے تک ) پڑتی ہے کیا؟ جب پڑتی ہے تو پوری ہی پڑتی ہے ؟اس شخص کا کہنا ہے کہ میں نے مشروط کی تھی جبکہ شرطیہ الفاظ درست نہیں ہیں اور وقفہ بھی پایا گیا؟ اس لڑکی پاس کوئی گواہ نہیں اور وہ قسم کھانے کو تیار ہے ؟ اس کے شوہر والوں کا کہنا ہے کہ اگر واقع ہو بھی جائے تو پھر بذریعہ نکاح جوڑنے کی گنجائش ہے نا؟ اور یہ لڑکی کہتی ہے کہ اکثر کنایہ یا صراحت کے ساتھ طلاق کی دھمکی دیتے ہی رہتے ہیں۔ اگر کچھ عمر بڑھ جانے کے بعد یہ مسئلہ پیش آئے تو میرا کیا حشر ہوگا اب میں ہرگز اس کے پاس نہیں جاوں گی۔ تو پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟

    جواب نمبر: 161517

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:922-797/D=9/1439

    طلاق کو کسی وقت کے ساتھ محدود کرنا صحیح نہیں ہے، پس طلاق واقع وجائے اور وقت کی بات لغو ہوجائے گی۔

    لہٰذا صورت مسئولہ میں ”میری بہنوں کا فیصلہ ہونے تک تجھے طلاق ہے“ ابتدائی الفاظ لغو ہیں اور ”تجھے طلاق ہے“ سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی جس میں شوہر کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق رہتا ہے، اور عدت کے بعد دونوں کی رضامندی سے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے رجوع میں عورت کی رضامندی ضروری نہیں اور نکاح میں عورت کی رضامندی ضروری ہے بغیر اس کی مرضی کے دوبارہ نکاح نہیں ہوسکتا۔

    مذکورہ خاص صورت کے حکم کے علاوہ لڑکی جو کہہ رہی ہے کہ ”اکثر کنایہ یا صراحت کے ساتھ طلاق کی دھمکی دیتے رہتے ہیں“ پر کوئی حکم نہیں لگایا جاسکتا جب تک کہ صاف صاف وہ الفاظ نہ نقل کیے جائیں جو شوہر نے کہے ہیں۔

    اور اگر شوہر ان الفاظ کا منکر ہو تو اپنا معاملہ مقامی محکمہ شرعیہ میں پیش کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند