معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 157060
جواب نمبر: 157060
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:345-295/N=4/1439
شوہر بیوی سے کہے کہ تم فارغ ہو یا بیوی کے بارے میں کہے کہ وہ مجھ سے فارغ ہے تو یہ جملہ عرف میں صرف جواب کے لیے استعمال ہوتا ہے؛ اس لیے اس جملہ سے طلاق واقع ہونے کے لیے نیت ضروری نہیں؛ بلکہ طلاق کا معنی مراد ہونے پر قرینہ کا پایا جانا کافی ہے (احسن الفتاوی، ۵: ۱۸۸، مطبوعہ: ایچ، ایم، سعید کراچی) اور صورت مسئولہ میں جب بیوی شوہر کے گھر والوں سے جھگڑا کرکے شوہر کی لا علمی میں اپنے چچا کے گھر گئی اور جب شوہر کو معلوم ہوا تو اس نے بیوی کے چچا سے کہا کہ بیوی سے میری بات کرادو؛ لیکن چچا نے بات نہیں کرائی تو اس نے اپنی بیوی کے کزن کو فون پر کہا کہ وہ مجھ سے فارغ ہے چاہے ماں کے گھر جائے یا بہن کے گھر جائے تو اس جملہ میں اپنی لا تعلقی اور بے زاری کا اظہار اوررشتہ زوجیت ختم کرنے کا معنی ہی ظاہر ہے، اگر وہ معنی مراد ہوتے جو شوہر قسم کھاکر کہہ رہا ہے تو صاف صاف یہ کہتا ہے کہ میری بیوی سے یہ کہہ دو کہ وہ اپنی ماں کے گھر جاسکتی ہے، میں اجازت دیتا ہوں، میں نے جو طلاق کی قسم کھائی تھی، اس سے رجوع کرتا ہوں؛ اس لیے صورت مسئولہ میں حسب قرینہ شخص مذکور کی بیوی پر ایک طلاق بائنہ واقع ہوگئی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند