• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 155319

    عنوان: طلاق كی تعلیق كے بعد اسے واپس لینا؟

    سوال: ایک شوہر نے اپنی بیوی سے بولا کہ اگر تم اپنے بہن اور بہنوئی سے بات کرتی ہو یا ان سے ملتی ہو ان کے سامنے جاتی ہو تو تم میرے سے حرام ہو جاوٴگی، میرے نکاح سے الگ ہو جاوٴگی۔ مہربانی کر کے اتنا بتائیں کہ اگر ان کے شوہر اس بات کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو اس کی کیا شکل ہوگی؟ اور اگر اس بات کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو ان کی بیوی کے لیے شریعت کے مطابق کیا ہدایات ہوں گی؟

    جواب نمبر: 155319

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:79-98/sd=2/1439

    حرام کا لفظ دور حاضر کے عرف میں طلاق بائن کے معنی میں صریح ہے ؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر شوہر نے اپنی بیوی سے یہ جملہ کہا ہے کہ اگر تم اپنی بہن یا بہنوئی سے بات کرتی ہو یا اُن سے ملتی ہو، اُن کے سامنے جاتی ہو، تو تم میرے سے حرام ہوجاوٴگی ، تو ایسی صورت میں جیسے ہی بیوی اپنے بہن یا بہنوئی سے بات کرے گی یا اُن سے ملے گی یا اُن کے سامنے جائے گی، ویسے ہی اُس پر طلاق بائن واقع ہوجائے گی، اب شوہر تعلیق واپس نہیں لے سکتاہے ، طلاق واقع نہ ہونے کی بس یہی ایک صورت ہے کہ بیوی مذکورہ شرط کا ارتکاب نہ کرے ۔لہٰذا شوہر اپنی اہلیہ کو ایک طلاق دے کر چھوڑدے جب عدت پوری ہوجائے، تو اس کی بیوی شرط کا ارتکاب کرلے پھر شوہر اس سے نکاح کرلے، اس کے بعد دوبارہ شرط کے ارتکاب سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

    ومن الألفاظ المستعملة …علی الحرام فیقع بلا نیة للعرف(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطلاق، باب الصریح، ۴: ۴۶۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: فیقع بلا نیة للعرف:أی: فیکون صریحاً لا کنایة بدلیل عدم اشتراط النیة وإن کان الواقع فی لفظ الحرام البائن؛ لأن الصریح قد یقع بہ البائن الخ (رد المحتار)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند