معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 154930
جواب نمبر: 154930
بسم الله الرحمن الرحيم
3-4/N=1/1439Fatwa:
(۱): سوال میں مذکور شخص کی بیوی اگر ان رشتہ داروں میں سے کسی کے گھر جائے گی تو حسب شرط اس پر تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔
ألفاظ الشرط: إن … ومتی ومتی ما، ففي ہٰذہ الألفاظ إذا وجد الشرط انحلت الیمین وانتہت الخ (الفتاوی الھندیة، کتاب الطلاق، الباب الرابع فی الطلاق بالشرط ونحوہ، الفصل الأول فی ألفاظ الشرط،۱: ۴۱۵، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، إن وجد -الشرط- فی الملک طلقت الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطلاق، باب التعلیق، ۴: ۶۰۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
(۲): اگر ان رشتہ داروں نے اپنا رہائشی گھر تبدیل کرلیا تو قسم کا تعلق اس دوسرے رہائشی گھر سے ہوگا، اگرچہ یہ دوسرا اور پہلا دونوں گھر کرایہ کے ہوں ، ذاتی ملکیت کے نہ ہوں۔
حلف لا یدخل دار فلان یراد بہ نسبة السکنی إلیہ عرفاً ولو تبعاً أو بإعارة باعتبار عموم المجاز، ومعناہ کون محل الحقیقة فرداً من أفراد المجاز (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الأیمان، ۵: ۵۵۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
(۳): اگر عورت کا ان رشتہ داروں کے گھر جانا ناگزیر ہو اور یہ شخص تین طلاق سے بچنا چاہتا ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ یہ شخص اپنی بیوی کو صرف ایک طلاق رجعی دیدے، اس کے بعد عدت گذرجانے دے، یعنی: عدت میں نہ دوسری طلاق دے اور نہ رجعت کرے اور جب عدت پوری ہوجائے تو عورت ان رشتہ داروں میں سے کسی کے گھر چلی جائے، اس طرح قسم ختم ہوجائے گی اور عورت پر تین طلاقیں بھی واقع نہ ہوں گی؛ کیوں کہ عورت عدت کے بعد طلاق کا محل نہیں رہتی ، اس کے بعدیہ شخص عورت کی رضامندی سے اس کے ساتھ دوبارہ نکاح کرلے ، اب اگر یہ عورت اپنے ان رشتہ داروں میں سے کسی کے گھر جاتی ہے تو اس پر کوئی طلاق واقع نہ ہوگی؛ کیوں کہ قسم ختم ہوگئی ؛ البتہ نئے نکاح کے بعد شوہر صرف مابقیہ طلاق، یعنی: دو طلاق کا مالک ہوگا، مکمل تین کا نہیں ۔
وتنحل الیمین بعد وجود الشرط مطلقاً لکن إن وجد فی الملک طلقت وعتق وإلا لا،فحیلة من علق الثلاث بدخول الدار أن یطلقھا واحدة ثم بعد العدة تدخلھا فتنحل الیمین فینکحھا (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطلاق، باب التعلیق، ۵: ۵۵۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند