• معاملات >> شیئرز وسرمایہ کاری

    سوال نمبر: 3802

    عنوان:

    کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ شیئر مارکیٹ میں پیسے لگانا حرام ہے اور اکچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ حرام نہیں ہے۔ برا ہ کرم، بتائیں کہ شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے؟

    سوال:

    کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ شیئر مارکیٹ میں پیسے لگانا حرام ہے اور اکچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ حرام نہیں ہے۔ برا ہ کرم، بتائیں کہ شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے؟

    جواب نمبر: 3802

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 365/ ل= 343/ ل

     

    جو لوگ شیئر مارکیٹ میں روپئے لگانے کو مطلقاً حرام یا ناجائز کہتے ہیں ان کا قول درست نہیں اسی طرح جو لوگ مطلقاً جائز کہتے ہیں ان کا قول بھی درست نہیں، بلکہ کچھ شرائط کے ساتھ شیئرز مارکیٹ میں روپئے لگانے کی اجازت ہے، اور اس سے حاصل شدہ نفع استعمال کرنا درست ہے۔ ان شرائط کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

    (۱) وہ کمپنی حرام کاروبار میں ملوث نہ ہو، مثلاً وہ سودی بینک نہ ہو، سود اور قمار پر مبنی انشورنس کمپنی نہ ہو، شراب کا کاروبار کرنے والی کمپنی نہ ہو، وغیرہ وغیرہ۔

    (۲) اس کمپنی کے تمام اثاثے اور املاک نقد رقم کی شکل میں نہ ہوں بلکہ اس کمپنی کے کچھ منجمد اثاثے ہوں، مثلاً اس نے بلڈنگ بنالی ہو یا زمین خریدلی ہو اور واقعةً کمپنی قائم کرکے اس نے کاروبار شروع کردیا ہو اور یہ امر تحقیق سے معلوم کرلیا ہو۔ورنہ کمی بیشی کے ساتھ فروخت کرنا حرام ہوگا۔

    (۳) اگر اس کمپنی کا کسی قسم کے سودی کاروبار میں ملوث ہونا ممبر بننے کے بعد معلوم ہو تو اس کی سالانہ میٹنگ میں اس معاملہ کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔

    (۴) جب منافع تقسیم ہوں تو اس وقت نفع کا جتنا حصہ سودی معاملہ سے حاصل ہوا ہو اس کو بلانیت ثواب فقراء پر تقسیم کردے ۔

    (۵) شیئرز کی خرید و فروخت سے مقصود حصہ داری حاصل کرنا ہو، محض نفع و نقصان برابر کرکے نفع کمانا مقصود نہ ہو (جس میں شیئرز پر نہ تو قبضہ ہوتا ہے اور نہ ہی قبضہ پیش نظر ہوتا ہے) کیونکہ یہ سٹہ بازی کی شکل ہے جو حرام ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند