• معاملات >> شیئرز وسرمایہ کاری

    سوال نمبر: 320

    عنوان:

    بطور سیکوریٹی 25000 روپئے جمع کرکے اکاؤنٹ کھول کر گھر بیٹھے مارکیٹنگ کرنا کیسا ہے؟

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین شریعت مطہرہ کی روشنی میں، آج کل شیئر مارکیٹ کا کاروبار بہت زور و شور سے چل رہا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

     

    شیئر دلالوں کے پاس بہت ساری کمپنیوں کے شیئرز ہوتے ہیں۔ کسی بھی دلال کے پاس ہم اپنا اکاؤنٹ کھول لیتے ہیں، جس کے لیے ہمیں 25000/-سیکوریٹی کے طور اس کے پاس جمع کرنا پڑتا ہے۔ روزآنہ اپنے گھر بیٹھے کمپیوٹر کے ذریعہ مارکیٹ کے حالات معلوم کر لیے جاتے ہیں۔ جس کمپنی کے شیئرز کو مناسب سمجھا دو سو شیئرز کا لاٹ (Lot، یعنی پیکیج) ہم نے اپنے دلال سے خرید لیا۔ دو سو سے کم کی لاٹ ہم نہیں خرید سکتے۔ اس لاٹ کی پچیس فیصد رقم اسی وقت ہمیں دلال کو دینی پڑے گی ۔ اب یہ شیئرز ہمارے ہوگئے۔ ایک مہینے کے دوران جس وقت ہم چاہیں یہ شیئرز اپنے دلال کی معرفت فروخت کرسکتے ہیں، چاہے پوری لاٹ یا اس کا کوئی حصہ۔ اگر نفع ہوا تو یہ رقم ہمارے اکاؤنٹ میں جمع ہوجائے گی اور نقصان ہوا تو اس کا چیک دلال ہم سے لے لے گا۔ اگر ایک ماہ کے دوران یہ شیئرز ہم نے فروخت نہیں کیا تو مہینے کی آخری جمعرات کو یہ لاٹ ہم کو دلال کو واپس کرنا پڑے گا، اس وقت کے ریٹ کے مطابق ، خواہ نقصان ہو یا نفع۔ ہاں اس کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے ، ایک مہینہ گذر جانے کے بعد ہم اس لاٹ کو پھر دوبارہ ایک مہینے کے لیے بڑھا سکتے ہیں، اس وقت کے ریٹ کے مطابق، خواہ ریٹ زیادہ ہو یا کم۔ منافع کی صورت میں منافع کی رقم ہمارے اکاؤنٹ میں جمع ہوجائے گی اور نقصان کی صورت میں اس کا فرق ہم کو دینا پڑے گا۔ اس ساری کارراوئی میں ، دلال اپنا کمیشن لیتا ہے اور ٹیکس کے پیسے بھی کاٹ لیتا ہے۔ اگر ہم کم شیئرز خریدیں، تو کم شیئرز کی صورت میں کمیشن ایجنٹ کو زیادہ روپئے دینا پڑے گا اور پچاس شیئرز ہی خرید سکتے ہیں اور پوری رقم ادا کرنی ہوگی۔ لاٹ لینے کی صورت میں کمیشن کم ہوجاتا ہے اور پچیس فیصد رقم دے کر دو سو شیئرز کے مالک بن جاتے ہیں۔ گزارش ہے کہ شریعت مطہرہ کی روشنی میں رہ نمائی فرمائیں کہ کیا اس طرح کاروبار کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 320

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوى: 62/د=62/د)

     

    (1) کمپنی کا شیئر خریدکر اس میں حصہ دار بن جانا اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ وہ کمپنی سودی کاروبار کرنے والی مثلاً بینک یا انشورنس کمپنی نہ ہو۔

     

    (2) اس کمپنی میں ناجائز و حرام چیزوں کی تیاری نہ کی جاتی ہو، مثلاً شراب کی کمپنی وغیرہ۔

     

    مگر آپ نے شیئر مارکیٹ کے کاروبار کی جو تفصیل لکھی ہے یہ جوے اور سٹے کے قسم کی چیز ہے اس سے مقصد نہ تو کمپنی میں حصہ دار بننا ہے اور نہ کسی کمپنی کا شیئر خریدکر اس کے نفع نقصان میں شریک ہونا ہے، بلکہ دلال کے واسطے سے شیئر کا پیکج خریدکر رواج کے مطابق سٹہ کھیلنا ہے اور جوے نیز قمار کی حرمت قرآن پاک سے ثابت ہے۔ اس لیے اس طرح کے شیئر مارکیٹ کے کاروبار سے احتراز کرنا چاہیے، اس سے حاصل ہونے والا نفع قمار جوے میں داخل ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند