عبادات >> صوم (روزہ )
سوال نمبر: 163994
جواب نمبر: 163994
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1359-1187/D=12/1439
فدیہ روزے کا بدل ہے اور روزہ کے واجب ہونے کا سبب ماہ ِ رمضان کی آمد ہے لہٰذا سببِ وجوب (ماہِ رمضان) سے پہلے فدیہ دینا درست نہیں، البتہ رمضان شروع ہوجانے کے بعد مابقیہ ایام کا فدیہ پہلے بھی دے سکتے ہیں لہٰذا جن مفتی صاحب نے یہ کہا کہ ”شعبان میں دیا ہوا فدیہ بھی ادا ہوگیا“ صحیح نہیں ہے۔ (احسن الفتاوی: ۴/ ۴۳۶، زکریا) وفي الدر المختار: وللشیخ الفانی العاجز عن الصوم الفطر ویفدي وجوبا ولو في أول الشہر، قال الشامي: أي یخیر بین دفعہا في أولہ وآخرہ (الدر مع الرد: ۳/۴۱۰، زکریا)
(۲) انسان جہاں مقیم ہو راجح قول کے مطابق وہاں کی قیمت کے اعتبار سے زید صدقة الفطر ادا کرچکا ہے اس لیے صرف مابقیہ رقم (جو ہندوستان کی بہ نسبت زائد ہے) ادا کرنا ضروری ہے پورے صدقة الفطر کو دوبارہ ادا کرنا ضروری نہیں۔
وصحح فی المحیط أنہ فی صدقة الفطر یؤدی حیث ہو، ولا یعتبر مکان الرأس من العبد والولد؛ لأن الواجب فی ذمة المولی حتی لو ہلک العبد لم یسقط عنہ فاختلف التصحیح کما تری فوجب الفحص عن ظاہر الروایة والرجوع إلیہا، والمنقول فی النہایة معزیا إلی المبسوط أن العبرة لمکان من تجب علیہ لا بمکان المخرج عنہ موافقا لتصحیح المحیط فکان ہو المذہب؛ ولہذا اختارہ قاضی خان فی فتاویہ مقتصرا علیہ، وحکی الخلاف فی البدائع فعن محمد یؤدی عن عبیدہ حیث ہو، وہو الأصح (البحر الرائق: ۲/ ۴۳۶، زکریا)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند