عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 176757
جواب نمبر: 176757
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:513-82T/sd=6/1441
ایک نماز کا فدیہ صدقة الفطر کے بقدر ہے، یعنی ایک کلو ۶۳۳/ گرام گیہوں یا اس کی قیمت، اس طرح وتر کو شامل کرکے یومیہ چھ نمازوں کے فدیہ کا حساب لگالیا جائے؛ البتہ یہاں چند امور ملحوظ رہنے چاہییں۔
(۱) ورثاء کے ذمہ فدیے کی ادائیگی اسی وقت واجب ہوتی ہے جب کہ مرحوم شخص نے اس کی وصیت کی ہو اور یہ ادائیگی بھی تہائی ترکہ سے لازم ہوتی ہے الا یہ کہ ورثاء راضی ہوں ۔
(۲) اگر مرحوم نے وصیت نہیں کی تھی، تو ورثاء کے ذمہ فدیہ کی ادائیگی واجب نہیں ہے۔
(۳) ورثاء میں اگر کوئی نابالغ ہو اور مرحوم نے وصیت نہ کی ہو، تو ورثاء کے لیے مشترکہ ترکہ میں سے فدیہ کی ادائے گی جائز نہیں ہے، خواہ سب راضی ہوں؛ہاں ترکہ تقسیم ہونے کے بعد اگر بالغ ورثاء اپنے حصے سے یا اپنی ذاتی ملکیت سے فدیہ دینا چاہیں، تو دے سکتے ہیں۔
(۴) صرف ان نمازوں کا فدیہ ادا کیا جائے گا جن کی ادائیگی پر انتقال سے قبل قدرت رہی ہو خواہ اشارے ہی سے قدرت ہو۔
قال الحصکفی: (ولو مات وعلیہ صلوات فائتة وأوصی بالکفارة یعطی لکل صلاة نصف صاع من بر) کالفطرة (وکذا حکم الوتر) والصوم، وإنما یعطی (من ثلث مالہ) قال ابن عابدین: (قولہ وعلیہ صلوات فائتة إلخ) أی بأن کان یقدر علی أدائہا ولو بالإیماء، فیلزمہ الإیصاء بہا وإلا فلا یلزمہ وإن قلت (قولہ یعطی) بالبناء للمجہول: أی یعطی عنہ ولیہ: أی من لہ ولایة التصرف فی مالہ بوصایة أو وراثة فیلزمہ ذلک من الثلث إن أوصی، وإلا فلا یلزم الولی ذلک لأنہا عبادة فلا بد فیہا من الاختیار، فإذا لم یوص فات الشرط فیسقط فی حق أحکام الدنیا للتعذ ر(قولہ وکذا حکم الوتر) لأنہ فرض عملی عندہ خلافا لہما ط (قولہ وإنما یعطی من ثلث مالہ) أی فلو زادت الوصیة علی الثلث لا یلزم الولی إخراج الزائد إلا بإجازة الورثة۔ ( الدر المختار مع رد المحتار : ۵۳۲/۲،۵۳۳، زکریا، دیوبند۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند