• معاشرت >> اخلاق و آداب

    سوال نمبر: 151423

    عنوان: بغیر کسی شرعی عذر کے بائیں ہاتھ سے مصافحہ کرناد

    سوال: میں ایک بات آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں، مہربانی فرما کر قرآن و حدیث سے رہنمائی فرما دیجئے ۔اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو سلام کرے اور اپنے دائیں ہاتھ سے مصافحہ کرے تو اس کے مقابلے میں دوسرا مسلمان بغیر کسی شرعی عذر کے دائیں ہاتھ سے نہیں بلکہ بائیں ہاتھ سے مصافحہ کرے ، ایک نہیں تین آدمیوں کو تو اس پر کو شرعی حکم کیا ہے ؟

    جواب نمبر: 151423

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 944-919/N=9/1438

    مصافحہ دونوں ہاتھ سے سنت ہے ؛ لہٰذا بلا عذر صرف ایک ہاتھ سے مصافحہ نہیں کرنا چاہیے ۔ اور اگر آدمی کے پاس کوئی سامان ہو جس کی وجہ سے ایک ہاتھ مشغول ہو تو سامان بائیں ہاتھ میں رہے اور مصافحہ دائیں ہاتھ سے کیا جائے ، ایسی صورت میں بلا عذر بائیں ہاتھ سے مصافحہ کرنا خلاف سنت ہے اور جو شخص غفلت وبے توجہی کی وجہ سے اس کا عادی ہو تو اسے توجہ دلانی چاہیے ۔

    عن ابن مسعود رضي الله عنهما  یقول: علَّمنی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم - وکفِّی بین کفیہ - التشہد، کما یعلمنی السورةَ من القرآن الحدیث (الجامع الصحیح للإمام البخاری، کتاب الاستئذان، باب الأخذ بالیدین، ص: ۹۲۶، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، والسنة فی المصافحة بکلتا یدیہ (مجمع الأنہر، کتاب الکراہیة، فصل فی النظر ونحوہ، ۴:۲۰۴، ط: دار الکتب العلمیة بیروت) ، ومثلہ فی الدر المنتقی (مع المجمع، ۴: ۲۰۴)، وفی القنیة:السنة فی المصافحة أن تکون بکلتا یدیہ (الدر المختر مع رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، ۹: ۵۴۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، عن عائشةقالت:کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم: یحب التیمن ما استطاع فی شأنہ کلہ فی طہورہ و ترجلہ و تنعلہ (الجامع الصحیح للإمام البخاری، باب التیمن فی دخول المسجد وغیرہ، ص: ۶۱، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند، و الصحیح لمسلم، کتاب الطہارة، باب التیمن فی الطہور وغیرہ، ۱:۱۳۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند) ، المراد بہ الأمور التی فیہا التکریم، کذا فی الخیر الجاری (حاشیة الصحیح للبخاری، ص۸۱۰) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند