• معاملات >> حدود و قصاص

    سوال نمبر: 6664

    عنوان:

    پچھلے دنوں آج ٹی وی پر ایک دینی پروگرام جس کا نام سفر ہدایت ہے سنا۔ اس میں ایک عالم صاحب ، ایک مرتدکے بارے میں (جواسلام لانے کے بعدپھر جائے)ایک بحث کررہے تھے۔ ان کے کہنے کے مطابق مرتد کو قتل کرنا واجب یا جائز نہیں، اور اس پر انھوں نے یہ دلیل دی کہ اس وقت کا اسلام جو ہے وہ مختلف فرقوں میں تقسیم ہے اور ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کس کے فرقے کا دین 100فیصد اس وقت کے اسلام سے ملتا ہے جو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا۔ جب کہ میں بچپن سے یہی سنتے آرہا ہوں کہ مرتد کو مارنا واجب اور فرض ہے۔ آپ اس بارے میں رہنمائی کریں۔

    سوال:

    پچھلے دنوں آج ٹی وی پر ایک دینی پروگرام جس کا نام سفر ہدایت ہے سنا۔ اس میں ایک عالم صاحب ، ایک مرتدکے بارے میں (جواسلام لانے کے بعدپھر جائے)ایک بحث کررہے تھے۔ ان کے کہنے کے مطابق مرتد کو قتل کرنا واجب یا جائز نہیں، اور اس پر انھوں نے یہ دلیل دی کہ اس وقت کا اسلام جو ہے وہ مختلف فرقوں میں تقسیم ہے اور ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کس کے فرقے کا دین 100فیصد اس وقت کے اسلام سے ملتا ہے جو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا۔ جب کہ میں بچپن سے یہی سنتے آرہا ہوں کہ مرتد کو مارنا واجب اور فرض ہے۔ آپ اس بارے میں رہنمائی کریں۔

    جواب نمبر: 6664

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1333=1250/ د

     

    ارتداد کی وجہ سے فوراً قتل کرنے کا حکم نہیں ہے بلکہ اس کو تین روز قید رکھا جائے گا اور اس کے شبہات کا ازالہ کیا جائے گا، جب شبہات کے ازالہ کے بعد بھی ارتداد پر قائم رہے، اور اس کے اسلام کی امید نہ ہو تو حاکم مسلمین کے ذمہ اس کا قتل کرنا ہے، قال في الد من ارتد عرض الحاکم علیہ الإسلام وتکشف شبھتہ ویحبس ثلاثة أیام إن استمھل وإلا قتلہ من ساعتہ إلا إذا رجي إسلامہ (شامي: ج۳ ص۳۱۳)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند