• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 174610

    عنوان: حفاظت رہن کی اجرت کے نام پر سود لینے کا حکم

    سوال: میرا سوال یہ ہے کہ مقروض آدمی شدید مجبور کی بنا پر سونے کے زیورات کو بینک میں رکھنا چاہتا ہے تاکہ پیسہ لیکر اپنا قرض ادا کرے اور بینک والے سود میں ہی دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہم بغیر سود نہیں دے سکتے ہیں کیونکہ ہم آپ کے مال کی حفاظت کرتے ہیں اور اس کو بعینہ اسی طرح لاکر میں رکھتے ہیں اس کے حفاظت کا خرچہ اور اس میں کام کرنے والے کو تنخواہ دیتے ہیں اسلئے ہم کو پیسے سود میں دینا پڑتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان کا سود لینا کو خرچ میں محمول کرسکتے ہیں یا نہیں؟جبکہ شئی مرہون کا حفاظتی خرچہ راہن پر ہی ہوتا ہے ؟ مدلل جواب مرحمت فرمائیں حوالے کے ساتھ۔

    جواب نمبر: 174610

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:105-92/N=2/1441

    بینک یا کوئی بھی قرض دینے والا ادارہ یا شخص، قرض لینے والے سے قرض پر جو اضافی رقم وصول کرتا ہے، وہ شرعاً سود ہی ہے خواہ اُسے سود کا نام دیا جائے یا خرچہ یا سروس چارج وغیرہ کا؛ کیوں کہ قرض شریعت میں خالص عقد تبرع ہے، اگر کوئی شخص دوسرے کو اس کی ضرورت کے لیے قرض دینا چاہتا ہے تو بلا کسی معاوضہ دے، اس پر کچھ بھی مزید وصول نہ کرے، اور اگرکوئی اس طرح قرض دینا نہیں چاہتا تو شریعت کسی کو قرض دینے پر مجبور نہیں کرتی ۔ اور اگر قرض پر کچھ بھی مزید وصول کیا جائے گا تو وہ یقیناً سود اور حرام ہوگا خواہ اسے کچھ بھی نام دیا جائے؛ کیوں کہ نام بدلنے سے حقیقت نہیں بدلتی۔ اور قرض دینے والا، قرض خواہ سے بہ طور رہن جو زیورات وغیرہ لیتا ہے، وہ اپنے مقصد کے لیے لیتا ہے، یعنی: اپنے قرضے کی وصول یابی کو یقینی بنانے اور اعتماد کے لیے؛ لہٰذا اس کی حفاظت اور رکھنے، اٹھانے کی ذمہ داری اور اس کا خرچہ راہن یعنی: قرض دینے والے کے ذمہ ہوگا، قرض لینے والے کے ذمہ نہیں، پس رہن کے حفاظتی خرچے کے نام پر بھی مزید کچھ وصول کرنا جائز نہیں ہوگا ؛ بلکہ وہ بھی سود اور حرام ہوگا۔

    قال اللّٰہ تعالی:وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵)،عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷: ۳۹۸- ۴۰۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وأجرة بیت حفظہ وحافظہ ومأوی الغنم علی المرتھن،……والأصل فیہ أن کل ما یحتاج إلیہ لمصلحة الرھن بنفسہ وتبقیتہ فعلی الراھن؛ لأنہ ملکہ، وکل ما کان لحفظہ فعلی المرتھن؛ لأن حبسہ لہ، واعلم أنہ لا یلزم شیٴ منہ لو اشترط علی الراھن۔ قھستاني عن الذخیرة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الرھن، ۱۰: ۹۳، ۹۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”شیٴ منہ“: أي: مما یجب علی المرتھن، وفي الجوھرة: لو شرط الراھن للمرتھن أجرة علی حفظ الرھن لا یستحق شیئاً؛ لأن الحفظ واجب علیہ بخلاف الودیعة؛ لأن الحفظ غیر واجب علی المودع اھ (رد المحتار)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند