• عبادات >> قسم و نذر

    سوال نمبر: 62190

    عنوان: کسی کو بچے کی قسم دینا

    سوال: اصل میں سوال یہ پوچھنا ہے ہم اور میری کزن بچپن کے دوست ہیں ۔ اب کسی بات کی وجہ سے جذبات میں آ کر اس نے میرے بچے کی قسم دے دی کہ ہم اب بات نہیں کریں گے ، اب ہم ایک دوسرے سے بات کرنا چاہتے ہیں اس کا کیا حل ہے ؟ کیا اس سے میرے بچے کو کوء نقصان تو نہیں ہوگا؟

    جواب نمبر: 62190

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 42-31/N=1/1437-U (۱،۲) محض کسی شخص کے قسم دینے سے شرعاً قسم نہیں ہوتی جیسے: کسی نے کہا کہ اللہ کی قسم، تم یہ کام ضرور کرو۔ اور اپنے بچے یا دوسرے کے بچے کی قسم کھانا یا دینا شرعاً گناہ وناجائز ہے، حدیث میں غیر اللہ کی قسم کھانے کی ممانعت آئی ہے؛ اس لیے صورت مسئولہ میں کوئی قسم نہیں ہوئی اور قسم کے خلاف کرنے سے نہ کوئی کفارہ واجب ہوگا اور نہ بچے کو کسی قسم کا نقصان ہوگا ان اشاء اللہ۔ البتہ آپ کی کزن کو چاہیے کہ توبہ واستغفار کریں اور آئندہ اس طرح کی قسمیں کھانے یا دینے سے سخت پرہیز کریں۔ اور اگر آپ مرد ہیں، یعنی: اپنی کزن کے حق میں نامحرم ہیں تو بلاضرورت ومجبوری آپ ان سے بات نہ کیا کریں؛ کیوں کہ اجنبیہ عورت یا لڑکی سے بلاضرورت مجبوری بات کرنا درست نہیں عن ابن عمر رضي اللہ عنہ قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: ”من حلف بغیر اللہ فقد أشرک“ رواہ الترمذي (مشکاة شریف، ص: ۲۹۶)،وقال في رد المحتار (۵: ۴۸۴ ط: مکتبہ زکریا دیوبند) عن الہدایة: ومن حلف بغیر اللہ تعالی لم یکن حالفًا کالنبي والکعبة لقولہ علیہ الصلاة السلام: ”من کان منکم حالفًا فلیحلف باللہ أو لیذر“ اھ، وقال في الدر (مع الرد: ۵/۴۸۸): وعن ابن مسعود رضي اللہ عنہ: لأن أحلف باللہ کاذبًا أحب إلي من أن أحلف بغیرہ صادقًا اھ، وفي الدر (۹: ۵۶۹) أیضًا: ولو قال لآخر: بحق اللہ أو باللہ أن تفعل کذا لا یلزمہ ذلک وإن کان الأولی فعلہ درر اھ، نیز بہشتی زیور مدلل (۳: ۵۱، ۵۲ مطبوعہ: کتب خانہ اختری متصل مظاہر علوم سہارنپور)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند