• عبادات >> قسم و نذر

    سوال نمبر: 175946

    عنوان: رشتے داروں کو کھلانے کی نذر كا حكم

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ میں نے نذر مانی تھی کہ اگر میرا فلاں مقصد پورا ہو گیا تو میں بکرا ذبح کر کے اپنے رشتے داروں کو بلا کر کھانا کھلاؤں گا۔اللہ کے کرم سے میرا وہ مقصد پورا ہو گیا تو کیا اب اپنے رشتے داروں کو بلا کر کھانا کھلانا ضروری ہے یا اگر میں ایک بکری اورکچھ پیسے کسی ایسے مدرسے میں دے دوں جہاں کچھ غریب کے بچے بھی پڑھتے ہوں اور امیر کے بچے بھی تو ایسا کرنے سے میرا نذر ادا ہوجائے گا یا رشتے داروں کو ہی بلا کر کھلانا پڑیگا۔ براہ کرم شریعت کے مطابق جواب عنایت فرمائیں ۔

    جواب نمبر: 175946

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:465-379/sn=6/1441

    اگر آپ نے صرف دل میں نیت کی تھی، زبان سے نہیں کہا تھا تو شرعا یہ نذر منعقد نہیں ہوئی ؛ باقی اگر آپ مقصد پورا ہونے کی خوشی پربکرا ذبح کرکے مدرسے کے غریب وامیر بچوں کو کھلانا چاہتے ہیں تو کھلا سکتے ہیں ،اس میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے، اگر آپ نے زبان سے بھی کہا تھا تواگر رشتے داروں میں مستحق ِ زکات لوگ بھی ہیں تو آپ نے جو نذر مانی ہے ، وہ شرعا منعقد ہوگئی (دیکھیں: فتاوی دارالعلوم دیوبند، 12/81،سوال:35، ط: کراچی)؛ لیکن نذر کا کھانا یا نذر کی رقم مالداروں کو دینا یا ان کا لینا شرعا جائز نہیں ہے؛ اس لیے آپ کچھ غریب لوگوں(جن میں طلبہ بھی ہوسکتے ہیں ) کو بلا کر کھلادیں، یا انھیں رقم دیدیں۔ غیر مستحق مالدار طلبہ کو کھلانا درست نہیں ہے ۔(دیکھیں: امداد الفتاوی 2/546،سوال:679،ط: کراچی، امداد الاحکام3/36،ط: کراچی، فتاوی رحیمیہ6/69، کتاب النذور والأیمان،ط: مکتبہ حیمیہ، گجرات، احسن الفتاوی5/482،ط: زکریا، دیوبند) واضح رہے کہ انعقاد نذر کی صورت میں غریب رشتے داروں کو ہی کھلانا ضروری نہیں ہے؛ بلکہ آپ کو اختیار ہے خواہ انھیں کھلائیں یا مدرسہ کے مستحق طلبہ کو یا دونوں کو۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند