• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 177384

    عنوان: غصے کی حالت میں یہ کہہ دیا کہ ’ روزانہ نماز پڑھ کے کوئی فائدہ نہیں‘

    سوال: میں نے شوہر کے جھگڑے سے تنگ آکر غصے کی حالت میں یہ کہہ دیا کہ ’ روزانہ نماز پڑھ کے کوئی فائدہ نہیں ، قسم سے آج کے بعد میں نماز نہیں پڑھوں گی ، اس سے اچھا تو ہندوہوتے ہیں‘، لیکن دل سے نہیں کہاتھا، جب کہ میں نے نماز بھی پڑھتی ہوں اور استغفار بھی کرتی رہتی ہوں تو کیا میرا نکاح ٹوٹ گیا؟ میں بہت دعائیں اور وظائف پڑھ پڑھ کر تھک گئی تھی ، کتنا روتی رہی ، مگر کچھ اثر نہیں ہوا، اور تکلیف اور غصے کی حالت میں ایسا کہہ دیا۔ براہ کرم، بتائیں کہ میرا نکاح ہے یا ٹوٹ گیا؟

    جواب نمبر: 177384

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:734-133T/L=8/1441

     صورت مسئولہ میں آپ نے غصہ کی حالت میں جن الفاظ کا تلفظ کیا ہے وہ کفریہ الفاظ ہیں، اس قسم کے الفاظ کے تلفظ سے آدمی ایمان سے خارج ہو جاتا ہے اور نکاح بھی ٹوٹ جاتا ہے ؛ لہٰذا صورت مسئولہ میں آپ کا نکاح ٹوٹ گیا، اب آپ پر ضروری ہے کہ صدق دل سے توبہ واستغفار کریں ،اور دوگواہوں کی موجودگی میں اپنے شوہر سے تجدید نکاح کرلیں، اور چونکہ آپ نے نماز نہ پڑھنے کی قسم کھائی ہے ، اس لیے بہتر ہے کہ احتیاطاً ایک کفارئہ قسم بھی دیدیں۔

    وفی الفتاوی الہندیة : اکرکوید مرا نماز نمی سازد یا حلال نمی سازد یا نماز از بہر جہ کنم کہ زن ندارم وبجہ ندارم یا کوید نماز را بر طاق نہادم یکفر فی جمیع ہذہ الصور کذا فی خزانة المفتین․ (الفتاوی الہندیة 2/270) وفی درر الحکام :ارتداد أحدہما ) أي أحد الزووجین (فسخ عاجل) للنکاح غیر موقوف علی الحکم وفائدة کونہ فسخا أن عدد الطلاق لا ینتقض بہ ہذا عند أبي حنیفة وأبي یوسف․ وقال محمد إن کانت الردة من المرأة فکذلک، وإن کانت من الزوج فطلاق․ (درر الحکام شرح غرر الأحکام 1/354) وفی تبیین الحقائق : قال رحمہ اللہ (ومن حلف علی معصیة ینبغي أن یحنث ویکفر) أي یجب علیہ أن یحنث لما روینا ولقولہ -علیہ الصلاة والسلام- ”لا نذر ولا یمین فیما لا یملک ابن آدم ولا في معصیة ولا فی قطیعة رحم“ رواہ النسائی وأبو داود وہو محمول علی نفي الوفاء بالمحلوف علیہ․ ( تبیین الحقائق 3/114)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند