• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 177354

    عنوان: کلما کی قسم میں فضولی کے نکاح پر اشکال اور اس کا جواب

    سوال: قابلِ احترام مفتیان کرام ایک شخص نے کلما کی قسم کھاتے ہوئے یہ الفاظ کہے کہ "جب جب بھی کسی عورت سے میرا نکاح ہو تبھی اسے (یعنی نکاح میں آنے والی ہر عورت کو) طلاق" مفتیان کرام سے سوال یہ ہے کہ ایسے شخص کا نکاح کیسے ہوسکتا ہے؟ اگر بذریعہ فضولی نکاح ہوسکتا ہے تو کیوں؟ یعنی اس صورت میں طلاق کیوں واقع نہیں ہوگی؟ جبکہ اس نے مطلق نکاح پر طلاق کو معلق کیا ہے ؟ یعنی میری ناقص عقل یہ کہتی ہے کہ جب بھی نکاح ہو خواہ فضولی کرائے یا کوئی اور کرائے، قبول قولاً ہو یا فعلاً، ہر صورت میں نکاح ہونے کے ساتھ ہی طلاق بھی واقع ہوجانی چاہیے تو پھر مفتیان کرام کرام کیوں کہتے ہیں کہ اگر فضولی نکاح کرائے اور فعلاً اجازت دیدی جائے تو نکاح ہوجائے گا؟ حضرت یہ کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ میں اپنے اس مسئلہ میں مکمل احتیاط کرنا چاہتا ہوں اور مجھے اس مسئلہ میں تسلی نہیں ہوپارہی ہے۔ برائے مہربانی اس سوال کا تسلی بخش جواب دیں بینوا و توجروا

    جواب نمبر: 177354

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:617-507/N=8/1441

    صورت مسئولہ میں جب کسی شخص نے یہ کہا کہ ”جب جب بھی کسی عورت سے میرا نکاح ہو،تبھی اُسے (یعنی: نکاح میں آنے والی ہر عورت کو) طلاق“ تو شخص مذکور نے منکوحہ کی طلاق نکاح پر معلق کی، اور نکاح بہ ذریعہ قول ہوتا ہے۔ اور جب فضولی کے نکاح کی اجازت بہ ذریعہ فعل ہوگی، بہ ذریعہ قول نہیں تو شخص مذکور کی جانب سے نکاح کے لیے قول نہیں پایاجائے گا اور فضولی ایجاب یا قبول کے لیے جو الفاظ کہے گا، وہ اگرچہ قول ہوں گے؛ لیکن وہ فضولی کا قول ہوں گے، شخص مذکور کا قول نہیں؛ اس لیے شخص مذکور اگر فضولی کے نکاح کی اجازت بہ ذریعہ فعل دے گا ، بہ ذریعہ قول نہیں تو نکاح بھی ہوجائے گا اور منکوحہ پر کوئی طلاق بھی واقع نہیں ہوگی۔

    العلة فیہ أنہ لیس لہ سبب إلا واحد وھو التزوج کما مر وھو لا یکون إلا بالقول، أفادہ ط (رد المحتار، کتاب الأیمان، باب الیمین في الضرب والقتل وغیر ذلک، ۱۱: ۶۶۷، ت: الفرفور، ط: دمشق)، فلو زاد علیہ : ” أو دخلت في نکاحي أو في عصمتي“ فالحکم کذلک لما قدمناہ من أن الدخول فیہ لیس لہ إلا سبب واحد وھو التزوج وھو لا یکون إلا بالقول، فلو زاد علیہ : ” أو أجزت نکاح فضولي ولو بالفعل فلا مخلص لہ الخ (البحر الرائق، کتاب الأیمان، باب الیمین في الضرب والقتل وغیر ذلک، ۴: ۶۶۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند