معاشرت >> نکاح
سوال نمبر: 176087
جواب نمبر: 176087
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:481-124T/SN=5/1441
سوال میں یہ واضح نہیں ہے کہ وہ مزید اولاد کیوں نہیں چاہتا؟ بہر حال اگر بیوی کی صحت کے پیش نظر یا اس بنا پر کہ ماں بچوں کی مناسب دیکھ ریکھ کرسکے نیز شوہر کو بھی وقت دے سکے دو بچوں کے درمیان مذکور فی السوال طریقہ اختیار کرکے مناسب وقفہ کرنے میں تو کوئی حرج نہیں ہے ؛ لیکن اِس خوف سے اولاد سے رک جانا کہ مزید بچوں کے اخراجات کا بوجھ کیسے اٹھائے گا؟ انھیں اچھے اسکول میں کیسے پڑھائے گا؟یہ غیر وں سے آئی ہوئی سوچ ہے ، شریعت کا مزاج نہیں ہے ، فقر وفاقہ اور رزق کی تنگی کے خوف سے ایسا کرنا شرعا دررست نہیں ہے ، آدمی کو چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ کرے ، اور شریعت کے احکام پر مضبوطی سے عمل کرے ،اللہ تعالے اس کے لیے رزق کا ایسا دروازہ کھولے گا جس کا اسے وہم وگمان بھی نہ رہا ہوگا ۔
وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَکُمْ خَشْیَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَإِیَّاکُمْ إِنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْئًا کَبِیرًا․ (الإسراء:31) قولہ تعالی نحن نرزقہم وإیاکم فیہ إخبار بأن رزق الجمیع علی اللہ تعالی واللہ سیسبب لہم ما ینفقون علی الأولاد وعلی أنفسہم وفیہ بیان أن اللہ تعالی سیرزق کل حیوان خلقہ مادامت حیاتہ باقیة وأنہ إنما یقطع رزقہ بالموت وبین اللہ تعالی ذلک لئلا یتعدی بعضہم علی بعض ولا یتناول مال غیرہ إذ کان اللہ قد سبب لہ من الرزق ما یغنیہ عن مال غیرہ إلخ (أحکام القرآن للجصاص 5/ 24، بیروت)
وَمَنْ یَتَّقِ اللَّہَ یَجْعَلْ لَہُ مَخْرَجًا ، وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ وَمَنْ یَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّہِ فَہُوَ حَسْبُہُ إِنَّ اللَّہَ بَالِغُ أَمْرِہِ قَدْ جَعَلَ اللَّہُ لِکُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا (الطلاق: 2 - 4]
(ویعزل عن الحرة) وکذا المکاتبة نہر بحثا (بإذنہا) لکن فی الخانیة أنہ یباح فی زماننا لفسادہ قال الکمال: فلیعتبر عذرا مسقطا لإذنہا إلخ(الدرالمختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 4/335،ط: زکریا)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند