• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 176084

    عنوان: بچوں کو اچھی تعلیم دینے کے مقصد سے اولاد سے اعراض کا حکم

    سوال: ایک آدمی نے نکاح کیا پھر اس کی تین اولاد ہوئی اور وہ اور اس کی بیوی دونوں تندرست ہو اور اب وہ بچے پیدا کرنے سے رک جائے اور وہ اس وجہ سے رک جائے کہ وہ اپنے بچّوں کی اچھی تربیت کرنا اور اچھی اسکول میں پڑھانا چاہتا ہے اور وہ اتنا ہی کماتا ہے جتنا تین بچوں کا بوجھ اٹھائے اپنے گھر کے ساتھ ۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسے آدمی کا بچے پیدا کرنے سے رک جانا کیسا ہے ؟ جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم زیادہ بچے پیدا کرو تاکہ میں تم پر فخر کروں۔ اور اب رہاروزی روٹی کے بارے میں سوال تو آپ اس پر تفصیلاً بتائیں کہ ایسا آدمی کیا کرے ؟

    جواب نمبر: 176084

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:480-125T/sn=5/1441

    دو بچوں کے درمیان اتنا وقفہ کرنا کہ ماں کی طبیعت سنبھل جائے اور وہ بچوں کی مناسب دیکھ ریکھ کرسکے نیز شوہر کو بھی وقت دے سکے ،اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے ؛ لیکن اِس خوف سے اولاد سے رک جانا کہ مزید بچوں کے اخراجات کا بوجھ کیسے اٹھائے گا؟ انھیں اچھے اسکول میں کیسے پڑھائے گا؟یہ غیر وں سے آئی ہوئی سوچ ہے ، شریعت کا مزاج نہیں ہے ، فقر وفاقہ اور رزق کی تنگی کے خوف سے ایسا کرنا شرعا دررست نہیں ہے ، آدمی کو چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ کرے ، اور شریعت کے احکام پر مضبوطی سے عمل کرے ،اللہ تعالے اس کے لیے رزق کا ایسا دروازہ کھولے گا جس کا اسے وہم وگمان بھی نہ ہوگا ۔

    (وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَکُمْ خَشْیَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَإِیَّاکُمْ إِنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْئًا کَبِیرًا ) (الإسراء: 31) قولہ تعالی نحن نرزقہم وإیاکم فیہ إخبار بأن رزق الجمیع علی اللہ تعالی واللہ سیسبب لہم ما ینفقون علی الأولاد وعلی أنفسہم وفیہ بیان أن اللہ تعالی سیرزق کل حیوان خلقہ مادامت حیاتہ باقیة وأنہ إنما یقطع رزقہ بالموت وبین اللہ تعالی ذلک لئلا یتعدی بعضہم علی بعض ولا یتناول مال غیرہ إذ کان اللہ قد سبب لہ من الرزق ما یغنیہ عن مال غیرہ إلخ (أحکام القرآن للجصاص 5/ 24، بیروت)

    وَمَنْ یَتَّقِ اللَّہَ یَجْعَلْ لَہُ مَخْرَجًا ، وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ وَمَنْ یَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّہِ فَہُوَ حَسْبُہُ إِنَّ اللَّہَ بَالِغُ أَمْرِہِ قَدْ جَعَلَ اللَّہُ لِکُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا (الطلاق: 2 - 4)

    (ویعزل عن الحرة) وکذا المکاتبة نہر بحثا (بإذنہا) لکن فی الخانیة أنہ یباح فی زماننا لفسادہ قال الکمال: فلیعتبر عذرا مسقطا لإذنہا إلخ(الدرالمختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 4/335،ط: زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند