معاشرت >> نکاح
سوال نمبر: 175820
جواب نمبر: 175820
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:409-326/N=5/1441
(۱، ۲): اگرسوال میں مذکور شخص کے باپ کی دوسری بیوی کی بیٹی، اُس کے باپ ہی سے ہے، یعنی: وہ شخص مذکور کی باپ شریک بہن ہے تو اس شخص نے اپنی باپ شریک بہن کی بیٹی سے جو نکاح کیا ، وہ قطعاً حرام وناجائز اور باطل ہے؛ کیوں کہ اسلام میں جس طرح باپ شریک بہن سے نکاح حرام ہے، اسی طرح باپ شریک بہن کی بیٹی سے بھی نکاح حرام ہے؛ لہٰذا دونوں ایک دوسرے سے فوراً علاحد ہوکر میاں بیوی کا رشتہ مکمل طور پر ختم کرلیں اور اب تک جو کچھ ہوا، اس سے دونوں سچی پکی توبہ اور استغفار کریں۔
وأما الأخوات فالأخت لأب وأم والأخت لأب والأخت لأم، وکذا بنات الأخ والأخت وإن سفلن… کذا في محیط السرخسي (الفتاوی الھندیة، کتاب النکاح، الباب الثالث في بیان المحرمات، القسم الأول: المحرمات بالنسب، ۱: ۲۷۳، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، وکذا الأخوات من أي جھة کن وبنات الأخوات وإن سفلن (االفتاوی الخانیةعلی ھامش الھندیة، ۱: ۳۶۰)، قال اللہ تعالی: قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ (سورة الزمر، رقم الآیة:۵۳)، وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: التائب من الذنب کمن لاذنب لہ رواہ ابن ماجہ والبیہقی في شعب الإیمان (مشکاة المصابیح،کتاب الدعوات، باب الاستغفار والتوبة، الفصل الثالث،ص: ۲۰۶، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، والحدیث حسنہ الحافظ ابن حجر العسقلانيلشواہدہ کما نقلہ عنہ السخاوی في المقاصد الحسنة لہ ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند