معاشرت >> نکاح
سوال نمبر: 173894
جواب نمبر: 17389401-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:156-113/sd=3/1441
صورت مسئولہ میں والد صاحب کی خالہ جو اُن کی رضاعی بہن بھی ہیں، آپ کی رضاعی پھوپی بنیں گی اور حقیقی پھوپی کی لڑکی سے نکاح جائز ہے، لہذا رضاعی پھوپی کی لڑکی سے بھی نکاح جائز ہوگا ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
عرض ہے جواب جلد عنایت فرمائیں چوں کہ مسئلہ کی نوعیت
بہت نازک ہے اور معاملہ کا فیصلہ بھی جلد ہوجائے اس کے لیے آپ سے عرض ہے کہ جواب میں جلدی فرمالیں گے تو
سہولت ہوجائے گی۔ اللہ
تعالیٰ آپ حضرات کو بہت جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین ایک صاحب کا نکاح تقریباً پانچ سال پہلے ایک لڑکی سے
کیا گیا جس میں اہل محلہ
کی ایک کثیر تعداد شریک ہوئی۔ نکاح کے وقت لڑکے کی عمر تقریبا 26 سال جبکہ لڑکی کی عمر تقریبا
18 سال تھی۔ نکاح
کے بعد رخصتی نہ ہوسکی جس کی وجہ مالی پریشانی اور مختلف اداروں میں بِل کلیئر نہ ہونے کی
وجہ سے مکان کی تعمیر میں تاخیر تھی۔ ابھی کچھ عرصہ قبل یعنی 27جون 2009ء کو لڑکی اپنے گھر سے نکل کر کسی
اور شخص کے ساتھ چلی گئی
اور وہاں جاکر انہوں نے نکاح کرلیا، اور نکاح کرتے وقت انہوں نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ
چوں کہ پہلے نکاح کو تین سال گزرچکے ہیں لہٰذا اب وہ نکاح ختم ہوچکا ہے اور انہوں نے دوبارہ نکاح کردیا
ہے...
میں پاکستانی شہری ہوں اور نوکری کی غرض سے
سعودی عربیہ میں مقیم ہوں۔میرے یہاں آنے سے پہلے مجھ کو ایک لڑکی پسند آئی، میں نے
اپنے گھر والوں کو اس کے بارے میں بتایا، دونوں گھر کے بڑوں میں بات چیت ہوئی، میرے
والدین شروع سے اس لڑکی کے خلاف تھے لیکن مجھ کو نہیں بتاتے تھے ان لوگوں نے میری
بات اس لڑکی کے ساتھ منسوب کردی۔ پھر میں سعودی آگیا اب مجھے وہاں سے خبر آتی ہے
کہ میرا پورا خاندان یہ چاہتا ہے کہ میں اس لڑکی سے شادی نہ کروں، میرے والدین بھی
یہی چاہتے ہیں، کیوں کہ وہ لڑکی پنجابی ہے اور میں اردو بولتا ہوں۔ ہم دونوں کے
خاندان میں رہن سہن کا بہت فرق ہے۔ میں اس صورت میں بہت پریشانی میں ہوں۔ جن والدین
نے میری بات طے کی تھی وہی مجھ سے اس کو چھوڑنے کا کہہ رہے ہیں۔ میں نے اس لڑکی سے
بھی کافی وعدے کئے ہیں زندگی ساتھ گزارنے کے۔ برائے کرم میری مدد کیجئے اور مجھ کو
صحیح راستہ دکھائیے؟
کیا حلالہ کی غرض سے مرد اپنی بیوی کی بہن سے شادی کرسکتاہے؟
2622 مناظرایک لڑکی کا کسی کے ساتھ عشق ہوگیا اوروہ
ساری تدبیر اختیار کرنے کے بعد بھی چلی گئی یعنی جتنی کوششیں روکنے کی کرسکتے تھے
کی، سمجھایا بھی خوب لیکن وہ موقع ملتے ہی اس لڑکے کے ساتھ چلی گئی۔ اب اس کے جانے
کے بعد خاندان والوں میں تین فرقے ہو گئے (۱)ایک
فرقہ تو کہتا ہے کہ جب وہ چلی گئی تو جانے دو چھوڑو اس کا چکر وہ جانے اس کا کام۔
(۲)دوسرا فرقہ یہ کہتا ہے کہ کسی طرح اس کو
واپس بلایا جائے اور لڑکے پر مقدمہ چلایا جائے۔ لیکن مقدمہ والے لوگوں کا یہ یقین
بھی نہیں کہ وہ مقدمہ کا بہانہ لے کر لڑکی کو بلاکر شاید اس کو ایذاء دیں، یا اور
کسی طرح کا ظلم کریں ان کی طرف سے کوئی بعید بات نہیں۔ (۳)تیسرا فرقہ وہ یہ کہتاہے کہ اس کا نکاح اسی
کے ساتھ کردیں۔ لیکن نکاح کرنے پر لڑکی کے والد راضی نہیں او رکیوں کہ بغیر اذن
ولی غیر کفو میں نکاح ہو نہیں سکتا کیوں کہ لڑکا نیچی ذات کا ہے۔ تو اس صورت میں
شرعی اعتبار سے کیا کرناچاہیے جواب سے آگاہ کریں؟