• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 172562

    عنوان: نكاح كے لیے گواہ كتنے اور كون لوگ ہوں اور اجازت كا طریقہ كیا ہو؟

    سوال: آج سے کچھ عرصہ پہلے تک یہاں مالیگاوٴں میں نکاح کا یہ طریقہ رائج تھا کہ دولہن کے خاندان کا کوئی بزرگ بطورِ وکیل دولہے کی جانب سے متعین کئے گئے دو گواہوں کو اپنے ساتھ لیجا کر دولہن سے نکاح کی اجازت(منظوری) لیتا تھا، اوردولہن کی اِس اجازت (منظوری)کی گواہی نکاح کی مجلس میں دونوں گواہ دیتے تھے۔ آج یہ طریقہ رواج پاگیا ہے کہ دولہن کا کوئی ولی مثلاً والد،چچا یا بھائی اپنی ولایت سے نکاح کی اجازت دیتے ہیں اور پہلے کی طرح دولہن سے دو گواہوں کی موجودگی میں دولہن کی اجازت (منظوری یا رضامندی)کی گواہی لینے کا طریقہ ختم ہوگیا ہے ۔یعنی نکاح کی مجلس میں نکاح پڑھانے والے صاحب دولہے کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ فلاح ولی صاحب نے اپنی ولایت اورفلاں فلاں دو گواہوں کی شہادت اور مقررہ مہر سے اپنی بچی کا نکاح آپ سے کیا، کیا آپ نے قبول کیا؟ جبکہ دونوں گوا ہ دو لہن کے ایجاب (اجازت،منظوری یا رضامندی)کے وقت موجود نہیں تھے ! بعض معاملے ایسے بھی سامنے آئے ہیں کہ نکاح کے وقت یا اس سے پہلے دولہن کے ولی نے دولہن سے اِس تعلق سے کوئی بھی بات نہیں کی، بس صرف دولہے سے قبول کروالینے کے بعد جب دولہن کے پاس اُس کی دستخط کیلئے نکاح کا رجسٹر لایا گیا تو معلوم ہوا کہ نکاح ہوگیا ہے۔ اس سلسلہ میں جواز یہ دیا جاتا ہے کہ چونکہ شادی کی تیاریاں پہلے سے چل رہی ہوتی ہیں، اسلئے دو لہن کو تو علم ہوگاہی کہ اس کا نکاح کیا جا رہا ہے اور اگر دلہن کی نارضامندی ہوتی تو وہ پہلے ہی انکار کر چکی ہوتی! اِس سلسلہ میں دریافت طلب امور یہ ہیں کہ: ۱۔ اِس نئے رواج کے مطابق ولی نے جس وقت دولہن سے اُس کی رضامندی (ایجاب)لی،اُسوقت دونوں گواہ تو موجود نہیں تھے,اور انہوں نے لڑکی کے ایجاب کو اپنے کانوں سے نہیں سناہے تو پھر وہ گواہی کس طرح دیں گے کہ دولہن نے متعلقہ دولہے سے اپنا نکاح کرنے کیلئے اپنی منظوری/رضامندی دی ہے ؟ ۲۔ کیا نکاح کی مجلس میں نکاح پڑھانے والے صاحب کا اتنا کہنا کہ دوگواہوں کی شہادت سے لڑکی کے ولی نے اپنی ولایت سے لڑکی کا نکاح کیا ہے عقد کے واقع ہونے کے لئے کافی ہے،جبکہ دولہن کی رضامندی اِن دو نوں گواہوں کی موجودگی میں نہیں لی گئی ہے؟ بینوا و توجروا۔

    جواب نمبر: 172562

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1230-170T/D=12/1440

    نکاح کے جس طریقے کو آپ نے ذکر کیا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیوں کہ مجلس عقد میں دو گواہوں کا موجود رہنا شرط ہے؛ لیکن مجلس استئذان یعنی لڑکی سے اجازت لیتے وقت دو گواہوں کی موجودگی نکاح کی صحت کے لئے شرط نہیں ہے، بلکہ بہتر یہی ہے کہ لڑکی کا ولی یا کوئی قریبی رشتہ دار خود جاکر اجازت لے؛ تاکہ بغیر پردے کے لڑکی کی آواز سن سکے اور اس کے رونے، سسکنے یا خاموشی کو دیکھ سکے، اس لئے کہ اجنبی کے سامنے لڑکی بول نہیں پاتی پھر پردے کے پیچھے سے کسی کی بھی آواز آسکتی ہے جو شبہ سے خالی نہیں ہے؛ البتہ اجازت لینے والا لڑکی کا محرم ہو یا اجنبی ہو، اجازت لیتے وقت گواہوں کا موجود رہنا بہتر ہے۔ قال الشامي: (وشرط حضور شاہدین) أي یشہدان علی العاقدین، أما الشہادة علی التوکیل بالنکاح فلیست بشرط لصحّتہ کما قدّمناہ عن البحر وإنما فائدتہا الإثبات عند جحود التوکیل ۔ (شامی: ۴/۸۷، ط: زکریا) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند