• عبادات >> جمعہ و عیدین

    سوال نمبر: 162879

    عنوان: نماز میں خیالات اور ان میں تغیرات کا حکم

    سوال: گذشتہ جمعہ کو میں خطبہ سن رہا تھا مسجد میں۔ جب امام نے محمد ابن عبد اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کہا تو لفظ عبد اللہ کے وقت میری نظر سامنے کی صف میں بیٹھے ایک نوجوان پر پڑی تو میں نے سوچا کہ یہ ”عبد اللہ“ ہے۔ پھر مجھے تنبہ ہوا کہ خطبہ میں تو عبد اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والد محترم کے لئے استعمال کیا گیا تھا تو میں نے فوراً یہ کہنا چاہا کہ ” یہ شخص جو سامنے بیٹھا ہے وہ وہ عبد اللہ نہیں ہے جس کا خطبہ میں ذکر کیا“ لیکن غلطی سے میں نے یہ کہہ دیا کہ ”یہ شخص جوسامنے بیٹھا ہے وہ وہ عبد اللہ نہیں ہے جس کا قرآن میں ذکر ہے“ پھر مجھے خیال آیا کہ قرآن میں تو سارے ہی بندوں سے خطاب ہے تو میں نے کہا کہ ” اس شخص کا ذکر قرآن میں ہے لیکن یہ وہ شخص نہیں ہے جس کا مولانا نے خطبہ میں ذکر کیا“ تو اس صورت میں : (۱) میں نے شروعات میں محمد بن عبد اللہ جب امام نے کہا تب میں نے اس شخص کے متعلق سوچا لفظ عبد اللہ کے وقت۔ (۲) میں نے پہلے یہ کہا کہ: ”یہ شخص جو سامنے بیٹھا ہے وہ وہ عبد اللہ نہیں ہے جس کا قرآن میں ذکر ہے“ ۔ (۳) تنبہ ہونے پر میں نے کہا کہ ”اس شخص کا ذکر قرآن میں ہے لیکن یہ وہ شخص نہیں ہے جس کا مولانا نے خطبہ میں ذکر کیا“ ۔ اوپر کی تینوں صورتوں میں کیا مجھے گناہ ہوگا یا ایمان میں کچھ فرق آئے گا؟

    جواب نمبر: 162879

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1209-1116/H=10/1439

    اِس طرح کے خیالات بلا قصد آجائیں اور اُن میں تغیر و تبدل بھی بغیر کسی ارادہ کے ہو جائے تو کچھ گناہ نہیں، البتہ قصد و ارادہ سے ایسے خیالات کا نماز میں لانا مکروہ ہے باقی ایمان میں بہرصورت کچھ فرق نہیں آتا سنت کے مطابق نماز اداء کریں اور مکروہات سے بچنے کا اہتمام کرتے رہیں تو اس قسم کے خیالات سے تحفظ بھی ہو جاتا ہے اور نماز میں خشوع خضوع بھی پیدا ہوکر نماز عمدہ ہوتی ہے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند