عبادات >> جمعہ و عیدین
سوال نمبر: 158863
جواب نمبر: 158863
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:715-674/L=7/1439
جمعہ کی اذان اول مسجد کے باہر موجود لوگوں کو اطلاع کرنے کے لیے ہے اس لیے پہلی اذان کا خراج مسجد ہونا بہتر ہے کیونکہ اذان کا مقصد اعلام غائبین ہے البتہ اگر مائک سے اذان دی جائے اور آواز خارج مسجد چلی جائے گویا اذان کا مقصد حاصل ہوجائے تو مسجد میں بھی اذان دینے کی گنجائش ہے جہاں تک دوسری اذان کا مسئلہ ہے تو اذان ثانی کی حیثیت اقامت کی طرح ہے کیونکہ اس کا مقصد حاضرین مسجد کو مطلع کرنا ہے کہ وہ نوافل وتلاوت وغیرہ سے فارغ ہوکر خطبہ سننے کے لیے متوجہ ہوجائیں اس لیے جمع کی اذانِ ثانی میں مسنون یہ ہے کہ منبر کے قریب خطیب کے سامنے ہو اور یہی عام بلادِعرب وعجم نیز سلف وخلف کا معمول بہ ہے وما رآہ المسلمون حسنا فہو عند اللہ حسن․ منہا: أن یجہر بالأذان فیرفع بہ صوتہ؛ لأن المقصود وہو الإعلام یحصل بہ ألا تری أن النبی - صلی اللہ علیہ وسلم - قال لعبد اللہ بن زید رضي اللہ عنہ علمہ بلالاً فإنہ أندی وأمد صوتا منک؟ ولہذا کان الأفضل أن یؤذن فی موضع یکون أسمع للجیران کالمئذنة ونحوہا․ (بدائع: ۱/ ۶۴۲، ط: دار الکتب العلمیہ، بیروت) ویوٴذن ثانیا بین یدیہ أي الخطیب وفي الشامیة تحت قولہ ویوٴذن ثانیا بین یدیہ علی سبیل السنیة کما یظہر من کلامہم (رد المحتار: ۲/۱۶۱، ہندیہ)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند