• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 6869

    عنوان:

    میرا سوال ،سوال نمبر:2755اور 5248کے بارے میں ہے۔ان کو پڑھنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ایسا شخص جو کہ 180000/-روپیہ ماہانہ کما رہاہو ا س کے پاس کوئی گھر ہی نہ ہو اور اس کو گھر یا کار خریدنے کی شدید ضرورت ہو، کیا ایسا ممکن ہے؟آپ نے اس کو یہ حل پیش کیا ہے۔ آپ کے الفاظ درج ذیل ہیں۔۔۔۔؟؟

    سوال:

    میرا سوال ،سوال نمبر:2755اور 5248کے بارے میں ہے۔ان کو پڑھنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ایسا شخص جو کہ 180000/-روپیہ ماہانہ کما رہاہو ا س کے پاس کوئی گھر ہی نہ ہو اور اس کو گھر یا کار خریدنے کی شدید ضرورت ہو، کیا ایسا ممکن ہے؟آپ نے اس کو یہ حل پیش کیا ہے۔ آپ کے الفاظ درج ذیل ہیں:

    ”اور اگر آپ لون کا معاملہ اس طرح کریں کہ نقد روپیہ بینک سے لینے کے بجائے بینک سے کہیں وہ کار یا مکان خریدکر آپ کو دے دے اور اپنا سود اس کی قیمت میں شامل کرلے ، مجموعی رقم (اصل قیمت مع سود) مکان یا کار کی قیمت ہوجائے جس پر آپ بینک سے خریداری کرلیں پھر قسط وار ادائیگی کردیں۔ اس صورت میں آپ کی انکم ٹیکس والی رقم بھی بچ جائے گی اور بینک کو سود دینے کا گناہ بھی نہ ہوگا“۔

    اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی شخص جو کہ کار یامکان لون لینا چاہتا ہے وہ بینک والو ں سے یہ کہہ سکتا ہے کہ سود کی رقم کو اصل رقم میں شامل کردو۔ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ جب کہ ہم جانتے ہیں کار کی قیمت تین لاکھ بیس ہزار ہے (فرض کرتے ہوئے) اور بینک چار لاکھ بیس ہزار لے رہا ہے (سود کے ساتھ)۔ تو آپ اس کو کیسے اجازت دے سکتے ہیں کہ سود کی رقم کو کار یا مکان کی اصل رقم میں شامل کردے؟ اس کا مطلب ہے کہ کوئی بھی کار یا مکان لون لے سکتا ہے اور بینک سے معاہدہ کرسکتا ہے کہ سود کو اصل رقم میں شامل کردے۔ آخر کار، بینک کو سود ملے گا یا ہم سود ادا کریں گے۔ جیسا کہ ہم بیوقوف نہیں ہیں کہ ہم کار کی اصل قیمت ہی نہ جان سکیں۔ ایک شخص جو کہ 180000/-روپیہ ہر مہینہ کما رہا ہے وہ کرایہ پر مکان لے سکتا ہے اور آٹو رکشا کے ذریعہ سے سفر کرسکتا ہے۔ اس لیے میرے خیال کے مطابق اس کو کار یا مکان کی ضرورت نہیں ہے ، یا ایک یا دوسال میں وہ دونوں چیزیں خرید سکتا ہے۔ 180000/- روپیہ بہت بڑی رقم ہے․․․․․․․․․․․ اس لیے آپ کیسے اس طرح کے آدمی کو اجازت دے سکتے ہیں․․․․․․․․․ اوردوسرے سوال نمبر:2755 میں آپ نے لون لینے کی اجازت نہیں دی ہے اور اس کو حرام قرار دیا ہے۔ برائے کرم مجھے جلد از جلد جواب عنایت فرماویں۔

    جواب نمبر: 6869

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1379/ د= 89/ ک

     

    محولہ جواب 5248,2755 کو آپ نے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش نہیں کی، اور غور سے نہیں پڑھا۔

    (الف) سود تو بینک کے لفظوں میں ہے ورنہ یہ درحقیقت ایک چیز خریدکر دوسرے کے ہاتھ زیادہ دام میں فروخت کرنا ہے جو یقینا جائز ہے اور خریدار کا زیادہ دام میں خریدنا بھی درست ہے۔

    (ب) بالاقساط ادا کیے جانے کی وجہ سے کسی چیز کی قیمت بڑھاکر لینا بھی جائز ہے جب کہ معاملہ کے وقت بالاقساط ادائیگی کی شرط پر ایک قیمت متعین ہوکر طے ہوگئی ہو۔ مثلاً ایک چیز کی قیمت بازار میں 5/- روپیہ ہے فروخت کنندہ خریدار سے یہ معاملہ کرتا ہے کہ میں تمھیں دس روپئے میں یہ چیز دوں گا تم دو روپیہ ماہانہ قیمت ادا کردینا، یہ صورت بھی بلاشبہ جائز ہے۔

    جواب مذکور میں اسی طرح کا معاملہ کرنے کی بات کار خریدنے والے سے کہی گئی ہے کہ اگر تم بینک سے اس طرح معاملہ کرلو کہ بینک خود کار خرید کر اپنا نفع شامل کرکے مجموعی رقم پر تمھارے بدست بالاقساط ادائیگی کی شرط پر کار فروخت کردے، تو یہ صورت جواز کی ہے بازار میں کار کی قیمت کچھ بھی ہو۔ جب کار کی قیمت تراضی طرفین سے طے ہوجائے گی تو ان کے حق میں یہی قیمت مقررہ قرار پائے گی۔

    (ج) بینک نے چونکہ خود کار خریدکر گراہک کو دیا ہے اس لیے زاید رقم اس کا نفع ہوگا، سود نہیں کہلائے گا۔ ہاں اگر بینک گراہک کو بجائے کار کے نقد رقم دیتا ہے تاکہ وہ خود کار خریدلے تو اس صورت میں زاید رقم جو بینک لے گا یقینا بلاشبہ سود کہلائے گا، جس کا لینا اور دینا حرام ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند