• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 582

    عنوان: گھر خریدنے کے لیے بینک سے لون لینا؟

    سوال:

    ہم کناڈا میں رہتے ہیں۔ اس ملک میں روزآنہ کے معاملات میں اسلامی قوانین پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا۔ میرا سوال Mortgage کے سلسلے میں ہے، (مورٹگیج ، یعنی بینک سے لون لینا اور اس لون کے بدلے بطور سیکوریٹی کچھ جائداد ریا کوئی اور شیء رہن رکھنا)۔ کیا ہمارے لیے جائز ہے کہ ہم مورٹگیج پر کوئی گھر خریدیں اور بینک کو سود ادا کریں؟ سود کی ادائیگی کا معاملہ ہمارے قابو سے باہر ہے (ہماری مجبوری ہے) اور کناڈا کے معاملاتی قوانین کا ایک حصہ ہے۔ میرا یہ سمجھنا ہے کہ ہم یہاں کے معاملاتی قوانین کی مجبوری میں سود ادا کرتے ہیں ، لیکن سود وصول نہیں کرتے۔ از راہ کرم، کیا آپ وضاحت فرمادیں گے کہ ایسے ممالک میں جہاں اسلامی قوانین لاگو نہیں وہاں ہمیں گھر خریدنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

    والسلام

    جواب نمبر: 582

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوى: 117/د=118/د)

     

    سود کا لینا اور دینا دونوں حرام ہے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ﴿اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ یعنی اللہ تعالی نے تجارت (خرید وفروخت) کو حلال وجائز ٹھہرا یاہے اور سود کا لین دین حرام حدیث میں ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے اور کھلانے والے سود کا معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت بھیجی ہے اور فرمایا کہ گناہ میں یہ سب برابر ہیں۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ سود کا ایک درہم جسے آدمی جانتے بوجھتے کھائے چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے، (مشکو ة)

    بطور سکو ریٹی جائیداد وغیرہ رہن رکھ کر اپنی ضرورت کے لئے قرض (لون) لینا جائز ہے مگر قرض پر سود دیناحرام ہے۔ آدمی حرام کو حرام سمجھتے ہو ئے اس سے بچنے اور احتیاط کرنے کی پوری کوشش کرے پھر بھی روزانہ کے معاملات میں اگر کچھ شمولیت تھوڑی ہو جائے تو اس سے توبہ اور استغفار کرتا رہے، کیوں کہ حدیث میں یہ پیشين گوئی بھی آئی ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا البتہ لوگوں پر ایک وقت ایسا ضرور آئے گا کہ کوئی شخص سود کھانے سے بچ نہیں سکے گا اور نہیں کھایا تو کم سے کم اسکا دھواں یا غبار تو اس کو پہونچکر رہے گا (مشکوة) اس وقت اسلامی اورغیر اسلامی ممالک میں سود کا رواج پھیلا ہو اہے، ایسے حالات میں ایک مومن کو حلال وطیب آمدنی پر قناعت اور اكتفا کرنے کی کوشش کرنا چاہئے اور حتی المقدور سود سے بچنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ مجبوری کی حالت یہ کہ آدمی کے پاس چھو ٹا بڑا کوئی مکان نہیں ہے اور نہ ہی کرایہ کے مکان سے اسکی گذر ہوسکتی ہے اور بغیر سود کے قرض ملنے کی کوئی صورت نہیں ہے تو بقدر ضرورت ایسا مکان (چھوٹا سے چھو ٹا جس سے گرمی سردی میں اس کی رہائش ہو سکے) بنانے کیلئے سود ی قرض لے سکتا ہے اس کو واقعی مجبوری ہے کہ نہیں؟ اس کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے اسی سے توبہ و استغفار بھی کرتا رہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند