• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 2388

    عنوان:

    كیا ہم حکومت کی امداد کا فائدہ اٹھاسکتے ہیں جو ہمارے لئے ہے؟

    سوال:

    سود وربا اور کے بارے میں پو چھنا چاہتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ قرآن اور حدیث کے مطابق یہ ممنوع ہے۔ بحث کے دوران اس طرح کے سوالات سامنے آتے ہیں کہ ہم پھر مکان کیسے خریدیں؟ اولاد کی دیکھ بھال کرنا اور ا ن کے لئے روزگار کے ذرائع پیدا کرنا مذہب کا حصہ ہے، یہ اس زمانے میں کیسے ممکن ہے جہاں ہرچیز لون پر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بیت المال ہوتا تھا جسے ہرایک کو برابری سے روپئے تقسیم کر نے کے لئے استعمال کیا جا تا تھا۔ اب یہ نظام نہیں رہا، اسلئے روپئے تقسیم کرنا کیسے ممکن ہے؟ ہم حکومت کی امداد کا فائدہ اٹھاسکتے ہیں جو ہمارے لئے ہے؟ اگر شروع میں شرح سود متعین ہو (لون کے حساب سے یہ فکس ہوتا ہے) تو آپ کے لون کی مدت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے، تو کیا اسلام میں اجازت ہے؟ ا گر میری طرح کسی کی ملازمت ہو، میں اپنی ملازمت سے خو ش ہوں، میں اس وقت تک بغیرلون یا سود کے کوئی قیمتی سامان نہیں خریدسکتا ہوں حتی کہ میں اتنا پس انداز کروں اور اس میں برسوں لگ سکتے ہے۔ اگر مذکورہ بالا نکات یا سوالات پر تفصیل سے روشنی ڈالیں اور اس پر فتوی دیں۔

    No definition found

    جواب نمبر: 2388

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوی:1262/ھ=973/ھ)

     

    جب کوئی شخص اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اخراجات کے لیے اعلیٰ پیمانہ مقرر کرلیتا ہے اور یہ بھی طے کرلیتا ہے کہ اس بلند معیار پر زندگی گذارنا بغیر سود کے ممکن نہیں ہے تو پھر ایسے شخص کو حلال بے غبار ذرائع آمدنی کے راستے مسدود ہی نظر آتے ہیں، اس کے برخلاف جو آدمی اپنی آمدنی اوراخراجات میں توازن قائم رکھتا ہے، فضولیات سے پرہیز کرتا ہے، اس کو عامةً پریشان کن حالات سے دوچار ہونا نہیں پڑتا اور ناجائز و حرام میں ابتلاء سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ جب سود کا حرام ہونا نازل ہوا، اس وقت کے حالات آپ کے سامنے نہیں ہیں۔ حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین عامةً کفار کے قرضوں میں دبے ہوئے تھے، سیدنا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو دوبارہ غلام بنانے کی دھمکی دی گئی تھی جس سے پریشان ہوکر ادائے قرض کا انتظام ہونے تک مدینہ پاک سے باہر چلے جانے کا ارادہ فرمالیا تھا وہ حضرات پیٹ پر پتھر باندھتے اور کئی کئی روز تک فاقوں میں گذاردیتے تھے، دو دو تین تین مہینوں تک گھروں میں آگ جلنے کی نوبت نہ آتی تھی، بھوک کی وجہ سے غش کھاکھاکر گرجایا کرتے تھے، ان جیسے حالات و واقعات کو کتبِ معتبرہ میں بار بار پڑھ کر ہم لوگوں کو اپنی اقتصادی و معاشی حالت پر غور کرنا چاہیے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند