• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 177827

    عنوان: تاخیر کی وجہ سے زیادہ رقم کی ادائیگی كا حكم نہیں

    سوال: اس امید کے ساتھ آپ کو ای میل کر رہا ہوں کہ آپ شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں گے۔ خیر۔ ہم چھ بھائی ہیں۔ہمارے والد وظیفہ یاب ایس ٹی کنٹرولر ہیں۔ جب وہ ریٹائرڈ ہوئے تو ان کا فنڈ ملا۔جس میں سے انھوں نے گھر تعمیر کرنے کے لئے میرے بڑے بھائی کو پیسے دئے۔ میں نے بیوپار کرنے کے لئے ان سے ایک لاکھ روپئے لوٹانے کا بول کر لیا کہ میں یہ پیسے کچھ عرصہ بعد لوٹا دوں گا۔ والد صاحب نے مجھے یہ رقم دی۔اور ایک مہینے کے بعد میرے پاس پونہ تشریف لے آئے۔(ہم رہنے والے علاقہ برار کے ہیں) اللہ کا کرنا کہ مجھے بیوپار میں نقصان ہوا۔ ادھرسیمنٹ، ریت، اور لوہے کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ مجھ سے بڑے بھائی پیسہ لوٹانے کے لئے اصرار کرنے لگے۔ (میں تیسرے نمبر کا ہوں) جو سب سے بڑے ہیں جن کے پاس گھر بنانے کے لئے پیسہ دیا گیا تھا۔انھوں نے میری آڑ لیکر، پیسوں کا استعمال کیا۔بعد میں انھوں نے گھر بنایا۔اور مجھے کہا کہ والد کے پیسے مجھے واپس کردینا۔کیونکہ میں نے قرض لے کر گھر بنایا ہے۔ اب میں نے تقریبا ڈیڑھ لاکھ رقم واپس کیا۔ اس کے بعد حال یہ ہے کہ میرے بھائی لوگ مجھے یہ کہتے ہیں کہ تونے ہمارا حق مارکر پیسہ لے گیا۔ جس وقت تونے ایک لاکھ لے گیا تھا اس وقت کے ایک لاکھ آج کے تین لاکھ۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔ جس وقت میں ایک لاکھ روپئے لے گیا تھا۔اس وقت والد صاحب شراب کے عادی تھے۔مجھ سے بڑے بھائی نے دو. تین سال بعد یہ الزام لگایا کہ والد صاحب مجھے ڈھائی لاکھ دینے والے تھے۔تونے ایک لاکھ پراکتفا کیا۔اس لئے تو ڈیڑھ لاکھ روپئے جو والد صاحب سے ملنے والے تھے نہیں ملے۔اس نقصان کا بھی تو ذمہ دار ہے۔ اب جبکہ والد صاحب خود میرے ساتھ تھے۔اور میں وہ رقم جسے گھر بنانے کی ذمہ داری دی گء تھی اسے لوٹا چکا ہوں ان کا مجھے یہ الزام دینا کہ میں نے دوسرے بھائیوں کا حق مارا ہے۔ بولنا کیسا ہے؟برئے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔ والسلام فقط ۔مختار شہیر

    جواب نمبر: 177827

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:803-156T/L=9/1441

    قرض لینے کی صورت میں جتنی رقم لی ہے اتنی ہی رقم کی واپسی لازم ہوتی ہے تاخیر کی وجہ سے زیادہ رقم کی ادائیگی کا حکم نہیں ہے ،اسی طرح محض اس بات کے گمان کی وجہ سے کہ والد صاحب ایک لاکھ کے بجائے ڈھائی لاکھ دینے والے تھے مگر تیری وجہ سے ایک لاکھ پر اکتفاکیا اور اس کی وجہ سے اس کا ذمہ دار آپ کو بنانا صحیح نہیں ۔

    وکذلک لو قال أقرضنی عشرة دراہم غلة بدینار، فأعطاہ عشرة دراہم فعلیہ مثلہا، ولا ینظر إلی غلاء الدراہم، ولا إلی رخصہا، وکذلک کل ما یکال ویوزن فالقرض فیہ جائز، وکذلک ما یعد من البیض والجوز اہ وفی الفتاوی الہندیة: استقرض حنطة فأعطی مثلہا بعدما تغیر سعرہا یجبر المقرض علی القبول.[الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 5/ 162)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند