• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 177262

    عنوان: سود کی رقم بیت الخلاء کی تعمیر کے لیے دی گئی اور بیت الخلاء دوسری رقم سے تعمیر ہوچکا ہے تو اب کیا کیا جائے؟

    سوال: دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ کسی شخص نے مدرسہ کے مہتمم صاحب کو بیت الخلاء کی تعمیر بابت سودی رقم دی ابھی یہ رقم مہتمم کے پاس ہی تھی کہ مدرسہ کے منشی نے مدرسہ کے فنڈ سے بیت الخلاء کی تعمیر کرادی تو کیا اب یہ سودی رقم اس کی جگہ مدرسہ کے فنڈ میں جمع کرنا جائز ہے؟

    جواب نمبر: 177262

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:598-475/N=8/1441

    سب سے پہلے یہ واضح ہونا چاہیے کہ اکابر علما ومفتیان دیوبند کے فتاوی کے مطابق سود کی رقم بیت الخلا یا استنجا خانہ وغیرہ کی تعمیر میں نہیں لگائی جاسکتی ؛ بلکہ اگر کسی انسان سے حاصل کردہ سود ہے تو وہ اُسی کو واپس کرنا چاہیے ۔ اور اگر اُس کا یا اُ س کے وارثین کا کچھ اتہ پتہ نہ ہو، جس کی وجہ سے اُسے واپس کرنا ممکن نہ ہو یا وہ بینک سے حاصل کردہ سود ہو تو بلا نیت ثواب غربا ومساکین کو دے کر اُنھیں مالک بنادیا جائے۔ اور اگر سرکاری بینک کا سود ہو تو وہ انکم ٹیکس یا سیل ٹیکس وغیرہ (غیر شرعی ٹیکسس) میں بھی دیا جاسکتا ہے، پس صورت مسئولہ میں جس شخص نے مہتمم مدرسہ کو سودی رقم بیت الخلاء کی تعمیر کے لیے دی ہے، اُسے وہ رقم شرعی مسئلہ بتاکر واپس کردی جائے۔ اور اگر اُس کی اجازت ہو تو غریب طلبہ میں تقسیم کردی جائے اور وہ اس سے اپنی اپنی کوئی ضرورت پوری کرلیں۔

    ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ،۹: ۵۵۳،ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء……،قال:والظاھر إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبة (معارف السنن، أبواب الطہارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طہور، ۱: ۳۴، ط: المکتبة الأشرفیة، دیوبند)، أفتی بعض أکابرنا أن للمسلم أن یاخذ الربا من أصحاب البنک أہل الحرب في دارہم، ثم یتصدق بہ علی الفقراء، ولا یصرفہ إلی حوائج نفسہ (إعلاء السنن۱۴:۳۷۲،ط: إدارة القرآن والعلوم الاسلامیة، کراتشي)، ویبرأ بردھا ولو بغیر علم المالک، فی البزازیة:غصب دراہم إنسان من کیسہ، ثم ردہا فیہ بلا علمہ برئ، وکذا لو سلمہ إلیہ بجہة أخریٰ کہبة وإیداع وشراء، وکذا لو أطعمہ فأکلہ،…،زیلعي (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الغصب، ۹: ۲۶۶، ۲۶۹)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند