• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 177172

    عنوان: انكم ٹیكس میں سود كی رقم ادا كرنے سے متعلق وضاحت

    سوال: کیا فرماتے علماے کرام و مفتیان عظام مسئلہ کے بارے میں بینک کے سود اور انکم ٹیکس کے عنوان سے میرے کچھ سوالات ہیں برائے مہربانی اس کے جوابات عنایت فرما کر ممنون ہوں۔ میں نے ویب سائٹ پر چند فتاوے دیکھے جس میں یہ درج ہے کہ بینک کے سود کی رقم سے انکم ٹیکس ادا کرسکتے ہیں، خواہ سرکاری بینک ہو یا پرائیویٹ بینک وہ فتاوے مندرجہ ذیل ہیں۔ سوال نمبر 63196 فتویٰ نمبر 255/195/D=03/1437 سوال نمبر: 153447،فتوی نمبر 1231/1216/SN=12/1438 سوال نمبر:150فتوی نمبر718=489/H اخیر کے دوفتاوے میں ، فتاویٰ محمودیہ جلد نمبر 4 کا حوالہ درج ہے۔ جب کہ ایک فتویٰ میں نے ایسا بھی دیکھا جس میں لکھا ہے صرف سرکاری بینک کے سود کی رقم سے انکم ٹیکس ادا کرسکتے ہیں، برائے مہربانی سوال نمبر: 64193،فتوی نمبر 584/861/N=09/1437 ملاحظہ فرمائیں جو فتاویٰ نظامیہ ج/1 233,234 اب میرا پہلا سوال یہ ہے کہ دونوں فتاوے میں سے کون سا فتویٰ صحیح اور قابل قبول ہے؟ اخیر کے فتوی میں جو درج ہے کہ صرف سرکاری بینک کی سود سے انکم ٹیکس ادا کرسکتے ہیں تو آپ کے نزدیک سرکاری بینک سے کون سے بینک مراد ہیں، کیا اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو سرکاری بینک سمجھا جاتا ہے؟ گزشتہ کئی سالوں سے میں نے بینک سے موصول ہونے والے سود کا حساب وکتاب لکھ رکھا ہے، اس میں سے کچھ تو غرباء میں تقسیم کردیئے ہیں اور کچھ اب بھی میرے پاس ہیں، اسی مدت میں میں نے اپنی تمام آمدنی پر ٹیکس ادا کیا ہے، اب میرے پاس جو سود کی رقم ہے اس سے انکم ٹیکس کی وہ رقم وضع کرسکتا ہوں جو میں نے پہلے ہی ادا کردیا ہے اور کیا بقیہ رقم غرباء میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ برائے مىربانی مذکورہ بالا سوالات کے جواب شریعت کی روشنی میں مرحمت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں۔

    جواب نمبر: 177172

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 6-180T/SN=08/1441

    آپ نے جن فتاوی کا حوالہ دیا ہے، ان میں یہ نہیں لکھا ہوا ہے کہ خواہ سرکاری بینک ہو یا پرائیویٹ ، ہر ایک کا سود انکم ٹیکس میں بھرا جا سکتا ہے؛ بلکہ ان میں مطلق ”بینک“ یا ”مطلق سود“ کا لفظ آیا ہے کہ بینک کا سود یا ”سود“ انکم ٹیکس میں بھرا جا سکتا ہے۔ اب عرض ہے کہ جن فتاوی میں مطلق ”بینک“ یا مطلق ”سود“ کا ذکر آیا ہے وہاں بھی سرکاری بینک ہی مراد ہے، تعمیم مقصود نہیں ہے؛ اس لئے دارالعلوم کے فتاوی میں کوئی تعارض نہیں ہے، واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا ایک سرکاری بینک ہے، اس کا سود انکم ٹیکس میں بھر سکتے ہیں، نیز اب تک جو انکم ٹیکس آپ نے ادا کیا ہے، اس کا حساب کرکے اسٹیٹ بینک یا کسی دوسرے سرکاری بینک کے سود سے اتنی رقم خود رکھ کر بقیہ غرباء پر صدقہ کر سکتے ہیں، شرعی اعتبار سے اس کی گنجائش ہے۔ (دیکھیں: امداد المفتین، ص: ۷۰۶، احسن الفتاوی: ۷/۲۱، ط: کراچی)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند