معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 175457
جواب نمبر: 175457
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:374-66/L=5/1441
(۱) موبائل کمپنیوں کے ایزی لوڈ کا کام کرنا جائز ہے اور اس پر جو کمیشن ملتا ہے وہ آپ کی اجرت ہے ،اس کو لینے میں کوئی حرج نہیں ۔
قال فی التتارخانیة: وفی الدلال والسمسار یجب أجر المثل، وما تواضعوا علیہ أن فی کل عشرة دنانیر کذا فذاک حرام علیہم. وفی الحاوی: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنہ لا بأس بہ وإن کان فی الأصل فاسدا لکثرة التعامل وکثیر من ہذا غیر جائز، فجوزوہ لحاجة الناس إلیہ کدخول الحمام .(شامی کتاب الإجارة ۹/۸۷زکریا)
(۲)ایزی پیسہ اور موبی کیش میں رقم کی منتقلی کاکام کرنا بھی جائز ہے اور کمپنی سروس چارج کے نام پر جو رقم لیتی ہے وہ بھی جائز ہے اور آپ کو جو کمیشن ملتا ہے اس کے لینے کی بھی گنجائش ہے ۔
(۳) بجلی ٹیلیفون وغیرہ کا بل جمع کرنا جائز ہے اگر جرمانہ کی رقم بھی ادا کرنا پڑے تو وہ چونکہ مجبوری ہے اور اس کی ادائیگی بھی تبعاً ہوتی ہے ؛اس لیے اس کی بھی گنجائش ہے ۔
قال فی فقہ البیوع :أن دائرة البرید نتقاضی عمولة من المرسل علی إجرائہذہ العملیة فالمدفوع إلی البرید أکثر مما یدفعہ البرید إلی المرسل إلیہ فکان فی معنی الربا ولہذالسبب أفتی بعض الفقہاء فی الماضی القریب بعدم جواز إرسال النقود بہذالطریق ولکن أفتی کثیر من العلماء المعاصرین بجوازہاعلی أساس أن العمولة التی یتقاضاہاالبرید عمولة مقابل الأعمال الإداریةمن دفع الاستمارة وتسجیل المبالغ وإرسال الاستمارة أوالبرقیة وغیرہاإلی مکتب البرید فی ید المرسل إلیہ وعلی ہذ الأساس جوز الإمام أشرف علی التہانوی رحمہ اللہ-إرسال المبالغ عن طریق الحوالة البریدیة.(فقہ البیوع:۲/۷۵۱)
(۴)اگر ادھار لینے سے پہلے بھی چائے اور کھانے کی چیزیں وغیرہ بھیجنے کی عادت تھی تو کھانے وغیرہ کا قبول کرنا جائز ہے ،اور اگر پہلے عادت نہیں تھی تو بھی سود میں داخل نہیں ؛اس لیے قبول کرنے کی گنجائش تو ہے ؛البتہ بچنا اولی اور بہتر ہے ۔
قال محمد - رحمہ اللہ تعالی - لا بأس بأن یجیب دعوة رجل لہ علیہ دین قال شیخ الإسلام ہذا جواب الحکم، فأما الأفضل أن یتورع عن الإجابة إذا علم أنہ لأجل الدین أو أشکل علیہ الحال قال شمس الأئمة الحلوانی - رحمہ اللہ تعالی - حالة الإشکال إنما یتورع إذا کان یدعوہ قبل الإقراض فی کل عشرین یوما وبعد الإقراض جعل یدعوہ فی کل عشرة أیام أو زاد فی الباجات أما إذا کان یدعوہ بعد الإقراض فی کل عشرین، ولا یزید فی الباجات فلا یتورع إلا إذا نص أنہ أضافہ لأجل الدین، کذا فی المحیط. (الفتاوی الہندیة 5/ 342-343)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند