• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 175183

    عنوان: سودی بینک کے ملازم کا روپیہ بطور ثمن دکان دار اپنے مبیع کے عوض لے سکتا ہے ؟

    سوال: ایک آدمی جو سودی بینک کے ملازم ہیں، اس بینک کی ملازمت کے باہر اس کی کوئی آمدنی نہیں ہے، سود سےپاک و صاف رہنے والا دوکاندار سے سامان خریدتا ہے، اس ملازم کا روپیہ بطور ثمن دکان دار اپنے مبیع کے عوض لیے سکتا ہے یا نہیں ؟اگر جائز نہیں تو دکان دار سامان دینے سے کس طرح باز رہے گا اور اس کو کیا جواب دے گا؟

    جواب نمبر: 175183

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 355-529/M=06/1441

    دوکاندار کے ذمہ یہ لازم نہیں کہ وہ ہر خریدار سے اس کے پیسے کے متعلق تحقیق کرے کہ اس کا روپیہ حلال ہے یا حرام؟ اِس میں بلاوجہ بدگمانی ہے اور فتنہ کا اندیشہ بھی ہے ، ہاں اگر کسی شخص کی کمائی کے بارے میں یقینی اور قطعی ذریعہ سے معلوم ہو کہ اس کی ساری یا اکثر کمائی حرام کی ہے تو اس کے ہاتھ سامان بیچنے سے احتراز کرے اور اگر تحقیق و یقین سے معلوم نہیں تو بلاوجہ شک نہ کرے سوال میں یہ واضح نہیں کہ سودی بینک کے ملازم کا بینک میں کام کیا ہے؟ اگر غیر سودی کام ہو جیسے دربانی وغیرہ تو اس پر حرام و ناجائز کا حکم نہیں، اور اگر سودی کام متعلق ہے تو جائز کام زیادہ ہے یا ناجائز؟ جب تک قطعی و صحیح صورت حال واضح نہ ہو بلاوجہ تردد میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند