• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 173971

    عنوان: بینک کا سود اے ٹی ایم کے چارجز میں مجرا کرسکتے ہیں یا نہیں؟

    سوال: میں ایک گرل اسٹوڈینٹ ہوں، میرا سیونگ اکاؤنٹ پنجاب نیشنل بینک میں ہے، میرے اکاؤنٹ میں آس پاس کے سبھی لوگوں کے پیسے باہر سے آتے ہیں ، میں اے ٹی ایم کے ذریعہ نکال کردیدیتی ہوں، میری اپنی کوئی رقم بینک میں نہیں رہتی ، اب بینک کی طرف سے جو انٹریسٹ آتاہے وہ چارج وغیرہ میں سے کٹ جاتاہے، اسی ویب سائٹ سے مجھے پتا چلا کہ یہ ناجائز ہے، میرا اکاؤنٹ چلتے ہوئے لگ بھگ آٹھ سال گذر چکے ہیں، میری اپنی کوئی آمدنی نہیں ہے تو ایسے میں میں اس گناہ کی کیسے تلافی کروں؟ فقط توبہ استغفار سے معافی ہوجائے گی یا نہیں؟

    جواب نمبر: 173971

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:132-115/N=3/1441

    بینک کی طرف سے اے ٹی ایم کی سہولت دیے جانے پر جو سالانہ چارج لیا جاتا ہے، وہ ناجائز نہیں ہے اور ایسے چارجز میں بینک کا انٹرسٹ مجرا نہیں کیا جاسکتا؛ لہٰذا جب سے آپ نے پنجاب نیشنل بینک میں اپنا سیونگ اکاوٴنٹ کھُلوایا ہے ، اس وقت سے اب تک آپ کی اپنی یا دوسروں کی جمع ہوئی یا ایک دو روز کے لیے ڈالی ہوئی رقم پر جو انٹرسٹ ملا ہے، پاس بک کی روشنی میں آپ اس کا مکمل حساب لگالیں، پھر وہ ساری رقم بلانیت ثواب غربا ومساکین کو دیدیں، ایسا کرنے پر سود کی رقم سے آپ کا ذمہ فارغ ہوجائے گا اور آپ کو کسی قسم کا گناہ نہیں ہوگا۔

    ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ،۹: ۵۵۳،ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء……،قال:والظاھر إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبة (معارف السنن، أبواب الطہارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طہور، ۱: ۳۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)،أفتی بعض أکابرنا أن للمسلم أن یاخذ الربا من أصحاب البنک أہل الحرب في دارہم، ثم یتصدق بہ علی الفقراء ولا یصرفہ إلی حوائج نفسہ (إعلاء السنن، ۱۴:۳۷۲،ط: ادارة القرآن والعلوم الاسلامیة کراتشي)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند