• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 173791

    عنوان: ڈالر کی خرید وفروخت

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں مثلا :ڈالر کی قیمت 72روپیے ہے اب اگر کوئی شخص 73یا70میں خرید کر80 روپے میں فروخت کرتا ہے تو یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 173791

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:97-85/N=2/1441

    ۲/ الگ الگ ملک کی کرنسیاں باہم مختلف الجنس ہوتی ہیں اور ان کا باہم تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ جائز ہوتا ہے اور اس میں نفع بھی لے سکتے ہیں بہ شرطیکہ دونوں کرنسیاں نقد ہوں، کوئی ادھار نہ ہو؛ لہٰذا آپ ۷۰یا ۷۳روپے کا ڈالر خرید کر اُسے نقد ۸۰/ روپے میں فروخت کرسکتے ہیں؛ البتہ تبادلہ میں عام ریٹ سے کمی بیشی اگر ملکی قانون کے خلاف ہو تو احتیاط چاہیے۔

    اور اگر کوئی ایک عوض ادھار ہو تو ثمن مثل ہی پر معاملہ ضروری ہے؛ ورنہ اس میں سود کے جواز کا حیلہ بنانے کا خطرہ ہے۔ اور اگر دونوں عوض ادھار ہوں تو یہ معاملہ سرے سے ناجائز ہے؛ کیوں کہ یہ بیع الکالیٴ بالکالیٴ کی صورت ہے، جو ممنوع وناجائز ہے۔

     وقید بالذھب والفضة لأنہ لو باع فضة بفلوس أو ذھبا بفلوس فإنہ یشترط قبض أحد البدلین قبل الافتراق لا قبضھما کذا فی الذخیرة وقدمناہ عند قولہ في باب الربا: ”وصح بیع الفلس بالفلسین “(البحر الرائق ۶: ۳۲۴عن الذخیرة، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، تتمة في أحکام الفلوس: فی المحیط: لو باع الفلوس بالفلوس أو بالدراھم أو بالدنانیر فنقد أحدھما دون الآخر جاز، وإن افترقا لا عن قبض أحدھما جاز (المصدر السابق، ص ۲۱۹، ۲۲۰)، قولہ: وإن افترقا لا عن قبض أحدھما جاز“ قال الرملي: صوابہ: لا یجوز (منحة الخالق علی البحر الرائق)، ومثلہ فی الدر المختار (مع رد المحتار ۷: ۴۱۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وسئل الحانوتي عن بیع الذھب بالفلوس نسیئة، فأجاب بأنہ یجوز إذا قبض أحد البدلین لما فی البزازیة: لو اشتری مائة فلس بدرھم یکفي التقابض من أحد الجانبین الخ (رد المحتار ۷: ۴۱۴)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند