معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 170914
جواب نمبر: 170914
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1112-970/H=10/1440
جو ربا والی چیزوں میں زیادتی بلا معاوضہ حاصل ہو وہ سود ہے۔ کذا فی عامة کتب الفقہ والفتاوی جیسے کوئی شخص ایک کونٹل گیہوں دے کر ایک کونٹل ایک کلو واپس لے، سو روپئے دے کر ایک سو دس روپئے لے وغیرہ یہ سب سود کی شکلیں ہیں کہ جو حرام ہیں آپ کی یہ تحقیق بڑی عجیب و غریب ہے کہ بینک سے ملنے والا سود بطور انعام و خوشی کے دیا جاتا ہے معلوم نہیں یہ آپ کا اختراع ہے یا بینک کا ابھی کوئی نیا قانون آیا ہے انعام و خوشی میں لینے دینے والی چیز پر نہ تو کوئی کسی کا جبر ہوتا ہے نہ زبردستی اس کو وصول کیا جاتا ہے جن لوگوں کا سود لاکھوں اور کروڑوں کی مقدار میں ہوتا ہے اگر بینک والے ان سے کہیں کہ یہ لاکھوں روپئے جو ہم انعام دیتے ہیں وہ ہم آپ کونہیں دیں گے تو بس وہ خاموش ہوکر بیٹھ جائیں گے کہ چلو انعام تھا نہ ملا یا عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاکر بینک والوں سے زبردستی وصول کریں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ انعام تو تبرعِ محض ہوتا ہے دینے والا اپنی خوشی سے دے تو لینا جائز ہوتا ہے کسی بھی درجہ میں زبردستی اس کو لینے کا حق نہیں ہوتا نیز انعام میں کوئی مقدار مقرر نہیں دینے والا جس کو جو چاہے دے ایک ہی مجلس میں چند بچوں نے قرآن شریف سنایا استاد خوش ہوکر جس کو جتنا چاہے کم زیادہ انعام دیدے کچھ حرج نہیں کیا بینک کا سود بھی آپ کے یہاں بینک والے اسی طرح تقسیم کرتے ہیں؟ ظاہر ہے ہرگز ایسا نہیں بہرحال بینک سے حاصل ہونے والی سودی رقم کو انعام یا بطور خوشی ملنے والی رقم سمجھنا غلط ہے خود بینکوں کے ذمہ داران بھی اس کو انعامی رقم نہیں سمجھتے نہ اس کے ساتھ انعامی رقم کا کوئی معاملہ برتتے ہیں بلکہ جس طرح شرعی لحاظ سے وہ سود ہے اسی طرح وہ لوگ بھی سود ہی سمجھتے ہیں اور سود ہی کے اصول ضوابط پر عمل پیرا ہوکر اس کا لین دین کرتے ہیں بینکوں کے کاغذات میں بھی سود ہی لکھا جاتا ہے انعام کوئی نہیں لکھتا۔ اللہ پاک دینی امور میں صحیح فہم عطا فرمائے۔ آمین
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند