• عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم

    سوال نمبر: 149490

    عنوان: بدعت حسنہ فقہائے احناف کی نظرمیں

    سوال: (۱) ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی کتاب، کتاب البدعة میں انہوں نے دس سے زائد فقہائے احناف کے قول پیش کئے ہیں جو دین میں بدعت حسنہ کے قائل ہیں، کیا وہ سب فقہاء غلطی پر ہیں؟ (۲) کیا فقہاء امت میں اس بات پر اختلاف ہے کہ دین میں بدعت حسنہ ہے یا نہیں؟ (۳) اس حدیث کا مطلب ائمہ و محدثین نے کیا لکھا ہے جس نے دین اسلام میں کوئی اچھا کام ایجاد کیا ہو اور اس کو اس کے عمل کا ثواب ملے گا یا نہیں؟ براہ کرم کسی امام کا حوالہ دیں۔ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 149490

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 786-767/M=7/1438

    (۱) ہم ڈاکٹر طاہر القادری صاحب سے واقف نہیں اور ان کی کتاب ”کتاب البدعة“ بھی ہمارے پاس نہیں، کتاب سے زیر بحث صفحات کی فوٹو کاپی سوال کے ساتھ بھیجتے تو بہتر تھا، جو فقہاء احناف بدعت حسنہ کے قائل ہیں ان کو غلطی پر کس نے قرار دیا ہے؟ اور ان فقہاء نے بدعت حسنہ سے کیا مراد لیا ہے؟

    (۲) بدعت حسنہ کا اعتبار ہے، اس میں اختلاف نہیں ہے، اختلاف اس کی تعریف وتطبیق میں ہے۔

    (۳) مسلم شریف کی روایت ہے: من سن في الإسلام سنة حسنة فعمل بہا بعدہ کتب لہ مثل أجر من عمل بہا ولا ینقص من أجورہم شيء ومن سن في الإسلام سنة سیئة فعمل بہا بعدہ کتب علیہ مثل وزر من عمل بہا ولاینقص من أوزارہم شيء․ ترجمہ: جو آدمی اسلام میں کوئی اچھا کام ایجاد کرے پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا جائے تو جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان کے اجر کی مثل اس کے لیے لکھا جائے گا اور خود ان عمل کرنے والوں کے اجر میں سے کچھ کم نہ ہوگا، اور جو کوئی اسلام میں کسی برے کام کی طرح ڈالے پھر اس کے بعد لوگ اس کو اپنے عمل میں لائیں تو ان سب کو جو گناہ ہوگا وہ اس کے نامہٴ اعمال میں لکھا جائے گا جب کہ عمل کرنے والوں کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہوگی“ (مسلم شریف) بدعت کے معنی نئی چیز کے ہیں؛ لیکن حدیث سے معلوم ہوا کہ ہرنئی چیز ناجائز نہیں ہے، ایسا نیا کام جس کی کوئی اصل، مثال یا نظیر قرون ثلاثہ میں موجود ہو یا شریعت کے ساتھ اس کی کوئی مطابقت ہو وہ بدعت حسنہ ہے اور جو نئی چیز ایسی ہو جس کی کوئی اصل یا نظیر نہ ہو، قواعد دین کے خلاف ہو، دین وشریعت کی مصلحتوں کے خلاف ہو وہ بدعت سیئہ ہے۔ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: والتحقیق أنہا إن کانت مما تندرج تحت مستحسن في الشرع فہي حسنة وإن کانت مما تندرج تحت مستقبح في الشرع فہي مستقبحة (فتح الباري)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند