• عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم

    سوال نمبر: 1449

    عنوان:

    کیا درس قرآن کے ختم کی تقریب منانے کی رسم درست ہے؟ 

    سوال:

    کیا درس قرآن کے ختم کی تقریب منانے کی رسم درست ہے؟ اس میں مستند علماء اور مفتیان کرام کو بیان کے لیے مدعو کیا جاتا ہے، ان کی دعوت ہوتی ہے اور انھیں ہدایا پیش کیے جاتے ہیں، اور صرفہ کی رقم بطور چندہ مسجد کے نمازی حضرات سے وصول کی جاتی ہے۔ نیز، جواب کے اندر اس مسئلہ پر بھی روشنی دالیں (جسے یہ علماء بطور توجیہ پیش کرتے ہیں) کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مٹھائی تقسیم فرماکر ختم قرآن کی خوشی منائی۔

    جواب نمبر: 1449

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوى:  276/م = 279/م)

     

    ریا اور فخر مقصود نہ ہو اور نہ دن تاریخ کی کوئی تخصیص ہو نہ کسی مفسدہ کا اندیشہ ہو، تو ختم قرآن کی تقریب منائی جاسکتی ہے لیکن اس کے لیے لوگوں سے چندہ وصول کرنا ٹھیک نہیں۔ فتاویٰ محمودیہ میں اسی طرح کے ایک استفتاء کے جواب میں حضرت مفتی محمود حسن صاحب رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ: ?قرآن کریم اللہ پاک کی بہت بڑی دولت ہے، اس کا حفظ کرلینا بہت بڑی دولت ہے۔ اگر شکرانہ کے طور پر احباب و متعارفین کو مدعو کیا جائے اور غرباء و احباب کو کھانا کھلایا جائے تو یہ اس نعمت کی قدردانی ہے ممنوع نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ پاک دوسروں کو بھی حفظ کا شوق عطا فرمائے۔اور یہ اجتماع ترغیب و تبلیغ میں معین ہوجائے، حضرت عمر فاروق -رضي الله عنه- نے جب سورہٴ بقرہ یاد کی تھی تو ایک اونٹ ذبح کرکے احباب و غرباء کو کھلادیا تھا، اس لیے سلف صالحین میں اس کی اصل اور نظیر موجود ہے، لیکن یاد رہے کہ اللہ کے یہاں اخلاص کی قدر ہے، ریا اور فخر کے لیے جو کام کیا جائے وہ مقبول نہیں، اور نیت کا حال خدا ہی کو معلوم ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی غور طلب ہے کہ اگر اس نے رسم کی صورت اختیار کرلی تو اور پریشانی ہوگی، اس لیے بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مخفی طور پر غرباء کو ان کی ضروریات کی اشیاء دیدی جائیں اور بچہ نے جہاں ختم کیا ہے وہاں پڑھنے والے بچوں اور ان کے اساتذہ کو شیرینی وغیرہ دیدی جائے اور مدرسہ کی امداد کردی جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند