• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 2310

    عنوان: سوال میں درج طریقہ پر وراثت کی تقسیم درست ہے یا نہیں؟

    سوال:

    ہم (اپنے والدین کے پانچ جائز ورثہ) نے اپنے والدین کی جائداد کو درج ذیل طریقہ سے تقسیم کیا۔ براہ کرم، بتائیں کہ کیا ہم نے شرعی طور پر درست تقسیم کیا ہے؟ حقائق: (۱) والد، والدہ اور ایک بہن کا 2004ء سے قبل ہی انتقال ہوگیا۔ (۲) قانونی ورثہ- دو بھائی، تین بہنیں (۳) والد نے اپنی جائداد کے ایک چوتھائی یعنی پچیس فیصد کی وصیت کی تھی (جس میں سے .5 متوفیہ بیٹی کی اولاد کو، %7.75 زندہ ورثہ کی اولاد کو بطور تحفہ، %2.5 غریب رشتہ داروں کو، %2.25 مختلف مدرسوں کو)۔

    جائداد کی تقسیم اس طرح ہوئی:اصل جائداد کو بیچ دیا گیا اور u کو ورثہ کے مابین سورة النساء آیت نمبر ۱۱ کے مطابق تقسیم کردیا گیا (تمام ورثہ اس پر متفق تھے)۔ اب والد کی وصیت کے مطابق .5 کو متوفیہ بیٹی کی اولاد کو دیدیا گیا، تمام ورثہ اس پر بھی متفق رہے۔ %2.5 والد کے غریب رشتہ داروں کو، %2.25 مختلف مدرسوں کو اور %7.75 زندہ ورثہ کی اولاد کو بطور تحفہ، ان تینوں کو ورثہ نے مسترد کردیا اور اس کے عوض اس میں سے %4 کو بیت المال میں والد کے نام بطور سرمایہ کاری لگادیا اور بقیہ %8.5 کو تمام ورثہ نے سورة النساء آیت نمبر 11 کے مطابق تقسیم کرلیا۔

    جواب نمبر: 2310

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 982/ د= 936/ د

     

    آپ کے والد نے جو وصیت کی تھی، وہ ان کے جملہ ترکہ کے ایک تہائی کے اندر اندر تھی اس لیے اس مقدار کی وصیت شرعاً معتبر ہے نیز جن لوگوں کو یا جس جگہ دینے کی وصیت کی تھی وہ لوگ شرعی وارث نہیں تھے اس لیے ان کے حق میں وصیت شرعاً معتبر ہوگی۔ اس بنا پر صورتِ مذکورہ میں والد کے ورثہ کی ذمہ داری ہے کہ حسب وصیت موصی لہم (جن کے لیے وصیت کی گئی ہے) کو ان کا حصہ پہنچائیں، یہ ورثہ کے ذمہ واجب ہے۔ جن لوگوں نے اس پر عمل نہیں کیا اور والد کی وصیت کو نافذ نہیں کیا وہ سخت گنہ گار ہوں گے۔ اور غیروں کے مال کے غاصب قرار دیئے جائیں گے۔ %4 بطور سرمایہ کاری لگانا اور %5.5 آپس میں بانٹ لینا دونوں ناجائز حرکت ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند