معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 176734
جواب نمبر: 176734
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:632-200T/sn=8/1441
مذکورہ بالا شرط کے ساتھ باپ کا جائداد بیٹے کو ہبہ کرنا شرعا جائز تھا، نیز بیٹے کی طرف سے کچھ دنوں تک شرط پوری کرنے کے بعد، اس سے رک جانے کی وجہ سے باپ کا موہوبہ مال کو واپس اپنے قبضے میں لے لینا بھی شرعا جائز ہوا ؛ البتہ باپ پر یہ ضروری ہے کہ اب تک جتنی رقم بیٹے سے لی ہے وہ بیٹے کو واپس کرے؛ کیونکہ اس طرح کا ہبہ بمنزلہ بیع ہوتا ہے۔
تصح الہبة بشرط عوض ویعتبر الشرط. مثلا لو وہب أحد لآخر شیئا بشرط أن یعطیہ کذا عوضا أو یؤدی دینہ المعلوم المقدارتلزم الہبة ،کذلک لووہب أحد وسلم عقارا مملوکا لہ لآخر بشرط أن یقوم بنفقتہ حتی الممات وکان الموہوب لہ راضیا بإنفاقہ حسب ذلک الشرط فلیس للواہب إذا ندم الرجوع عن ہبتہ واسترداد ذلک العقار.(مجلة الأحکام العدلیة).............وہو لووہب أحد عقارہ المملوک أو مال المنقول لآخر بشرط أن یعولہ إلی أن یموت وسلمہ إیاہ وبعد أن عال الموہوب لہ الواہب مدة بحسب الشرط وکان راضیا بإعادتہ بعد ذلک فلیس للواہب إذا ندم الرجوع عن الہبة واسترداد عقارہ.ولوتوفی الواہب فی الہبة علی ہذا الوجہ بعد أن عالہ الموہوب لہ مدة فلیس لوارثہ مداخلة فی الموہوب.کذلک لو عال الموہوب لہ الواہب علی الشرط المذکور وتوفی الواہب بدون وارث فلیس لأمین بیت المال المداخلة فی العقار المذکور (النتیجة) إلا أنہ إذا لم یرض بإعاشتہ وامتنع عن ذلک فللواہب استرداد الموہوب فلذلک لیس للموہوب لہ أن یخرج المال الموہوب من ملکہ بوجہ من وجوہ الملک. (درر الحکام فی شرح مجلة الأحکام 2/ 430، کتاب الہبة ، المادة:855،ط: بیروت)
نیز دیکھیں : شرح المجلة از سلیم رستم باز ،ص:1/470،ط:دارالکتب العلمیة ، بیروت)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند