معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 174401
جواب نمبر: 174401
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:196-159/N=3/1441
(۱، ۲): صورت مسئولہ میں چوں کہ راشدہ کی اولاد کا مالکہ سے اور مالکہ کی اولاد کا راشدہ سے کوئی ایسا رشتہ نہیں ہے، جس کی بنا پرکوئی، دوسرے کا وارث ہو؛ بلکہ دونوں کے درمیان صرف سوتیلی ماں اور سوتیلی اولاد یا یہ کہیں کہ باپ کی بیوی اور شوہر کی اولا کا رشتہ ہے، پس راشدہ اور مالکہ میں ہر ایک کا ترکہ صرف اس کی اولاد میں تقسیم ہوگا، کسی کا ترکہ دوسرے کی اولاد میں تقسیم نہیں ہوگا۔
صورت مسئولہ میں راشدہ نے اگر اپنے وارثین میں صرف ۵/ بیٹے اور ۳/ بیٹیاں چھوڑی ہیں تو مرحومہ کا سارا ترکہ بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث ۱۳/ حصوں میں تقسیم ہوگا، جن میں سے ہر بیٹے کو ۲، ۲/ حصے اور ہر بیٹی کو ایک، ایک حصہ ملے گا۔ اور ۳/ لاکھ کا ترکہ اگر حقوق متقدمہ علی الارث سے فارغ ہے تو اوپر ذکر کردہ شرعی حصوں کے تناسب سے اس کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ ہر بیٹے کو ۸۴/ ۱۵۳،۴۶ ( چھالیس ہزار، ایک سو تریپن روپے، چھیاسی پیسے) اور ہر بیٹی کو ۹۲/ ۲۳۰۷۶ (تیئیس ہزار، چھہتر روپے، بانوے پیسے) ملیں گے۔
اسی طرح مالکہ نے اگر اپنے وارثین میں صرف ۲/ بیٹے اور ۳/ بیٹیاں چھوڑی ہیں تو اُس کا سارا ترکہ بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث ۷/ حصوں میں تقسیم ہوگا، جن میں سے ہر بیٹے کو ۲، ۲/ حصے اور ہر بیٹی کو ایک، ایک حصہ ملے گا۔ اور ۳/ لاکھ کا ترکہ اگر حقوق متقدمہ علی الارث سے فارغ ہے تو یہ اوپرذکر شرعی حصوں کے تناسب سے اس طرح تقسیم ہوگا کہ ہر بیٹے کو ۲۸/ ۷۱۴،۸۵ (پچاسی ہزار،سات سو، چودہ/ روپے، اٹھائیس/ پیسے) اور ہر بیٹی کو ۱۴/ ۸۵۷،۴۲ ( بیالیس ہزار، آٹھ سو، ستاون روپے، چودہ پیسے) ملیں گے۔
قال اللہ تعالی :﴿ یوصیکم اللہ في أولادکم للذکر مثل حظ الأنثیین﴾(سورة النساء، رقم الآیة: ۱۱)، ویصیر عصبة بغیرہ البناتُ بالابن الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الفرائض، ۱۰:۵۲۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند