• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 173763

    عنوان: وراثت میں بہنوں کا حصہ

    سوال: ہم 3 بھائی اور 6 بہنیں ہیں جس میں 3 بہنوں کا انتقال ہو چکا ہے اور 1 بہن ودو۵ ہیں جو 12 سال سے ہمارے ساتھ ہی رہ رہی ہیں سب ہی شادی شدہ ہیں مجھے ایک مسئلہ وراثت کے تعلق سے یہ معلوم کرنا ہے کہ ہمارا ایک فلیٹ ہے جس کو ہمادے والد نے 1998 میں خریدا تھا اور اس کی چھت ادھار پر لی تھی جس کی رقم کی ادائیگی ہم بھائیوں نے کی تھی بعد میں بھائیوں کی شادی کے وقت جگہ کی کمی کی وجہ سے چھت پر بھی مکان بنا لیا گیا اب مسئلہ یہ ہے کہ بہنوں کو حصہ والد کے خریدے فلیٹ میں سے دیا جائے گا یا چھت پر بنائے گئے فلیٹ میں سے بھی دیا جائے گا جسے بھائیوں نے مل کر بنوایا ہے اور چھت کی قیمت بھی بھائیوں نے ہی ادا کی ہے ؟ اور بہنوں کا حصہ کتنا ہوگا؟ اور کیا مرحومہ بہنوں کی اولاد کو بھی اس میں حصہ دینا ہوگا؟ برائے کرم جلد از جلد جواب عنایت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 173763

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:148-13T/L=3/1441

    چھت کے اوپر بھائیوں نے جو فلیٹ بنائے ہیں وہ بھائیوں کی ملکیت ہے ؛البتہ چھت آپ کے والد نے خریدا تھا ؛اس لیے وہ آپ کے والد کی ملکیت تھی اور چھت کی قیمت چونکہ بھائیوں نے اپنی طرف سے ادا کی ہے؛اس لیے ان کو اختیار ہے کہ ترکہ میں سے وہ قیمت وصول کریں ،اور تقسیم کے بعد چھت کا جوحصہ بہنوں کے حق میں آئے اس میں انھیں اختیار ہوگا اگر چاہیں تو فلیٹ توڑنے پر مجبور کرسکتی ہیں ،اور اگر چاہیں تو اس فلیٹ کا معاملہ اپنے بھائیوں سے کرسکتی ہیں بشرطیکہ نقصان کا اندیشہ نہ ہو۔

     ولو قضی الولد دین أبیہ وافتک الرہن، لم یکن متبرعا، ویرجع بجمیع ما قضی علی أبیہ؛ لأنہ مضطر إلی قضاء الدین، إذ لا یمکنہ الوصول إلی ملکہ إلا بقضاء الدین کلہ، فکان مضطرا فیہ، فلم یکن متبرعا بل یکون مأمورا بالقضاء من قبل الأب دلالة، فکان لہ أن یرجع علیہ بما قضی.(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع 6/ 136،الناشر: دار الکتب العلمیة) وہذا بخلاف ورثة الحر إذا قضی أحدہم دین أبیہ کان لہ أن یرجع فی کسب أبیہ لأنہ أدی من خالص مالہ وہو مضطر فی الأداء؛ لأنہ لا یصل إلی قبض نصیبہ من الترکة إلا بالأداء.(المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی 4/ 121،الناشر: دار الکتب العلمیة، بیروت - لبنان) المادة (1173) إذا بنی أحد الشرکاء لنفسہ فی الملک المشترک القابل للقسمة بدون إذن الآخرین ثم طلب الآخرونالقسمة تقسم فإن أصاب ذلک البناء حصة بانیہ فبہا , وإن أصابت حصة الآخر فلہ أن یکلف بانیہ ہدمہ ورفعہ.(مجلة الأحکام العدلیة ص: 227) 3 - (بدون إذن شریکہ) ، ہذا التعبیر لیس احترازیا بل اتفاقی لأنہ إذا بنی أحد الشرکاء لنفسہ بإذن شریکہ فإذا کان بلا بدل فہو عاریة وللمعیر فی أی وقت أراد الرجوع عن عاریتہ توفیقا للمادة (837) وأن یطلب قلع البناء.(درر الحکام فی شرح مجلة الأحکام 3/ 181،الناشر: دار الجیل)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند