• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 171876

    عنوان: دو بھائی اور پانچ بہنوں كے درمیان وراثت كی تقسیم

    سوال: ایک مسئلہ درپیش ہے رہنمائی فرمائیں، میرے والد کا انتقال ۲۰۰۷ ہوا، ہم ۲ بھائی اور ۵ بہنیں ہیں۔ میری والدہ نے۲۰۱۵ میں سب بہن بھائیوں سے زبانی کہا کہ دونوں گھر جو بالترتیب۱۱ مرلہ اور ۱۳ مرلہ ہیں بھائی رہائش پزیر ہیں ان کی ملکیت اور زرعی زمین ۱۵ کنال بالترتیب ۳ کنال بہنوں کی ملکیت کر دی۔ اس کے بعد زرعی زمین کی ادائیگی اور وصولی وہ تاحال خود کرتی رہی ہیں۔ جبکہ بھائی ان گھروں میں مقیم ہیں۔ ۲۰۱۶ میں سائل کے عقد نکاح کے وقت والدہ نے ۴ مرلہ ۱۳ مرلہ مکان میں جہاں سائل خود رہاش پزیر ہے میں بحصہ حق مہر میری زوج کے نام فروخت کر دی۔ میری والدہ کا انتقال ۲۰۱۷ میں ہوا۔ ابھی کچھ عرصہ قبل بہن اور بھائی میں کچھ اختلاف ہوا تو ۲بہنوں نے بھائیوں سے یہ کہا کہ تقسیم ٹھیک نہیں ہوئی ہمیں گھروں میں بھی اپنا حق چاہئے کیونکہ تقسیم غیر منصفانہ تھی باقی ۳ بہنیں والدہ کی تقسیم سے متفق ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ دونوں گھر میری والدہ کی ملکیت ہیں۔ اور زرعی زمین والد کی ملکیت ہے۔ میرے والدین کی وراثت کا اور کوئی شرعی وارث نہیں ہے ہم ۲ بھائیوں اور ۵ بہنوں کے علاوہ۔ براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 171876

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1047-933/M=11/1440

    والدہ کو اپنی حیات میں اپنی ملکیت میں ہر تصرف کا حق ہے لیکن جو چیز والد صاحب کی ملکیت ہے وہ والد کے انتقال کے بعد ترکہ بن گئی اس میں والدہ سمیت سبھی بہن بھائیوں کا حصہ ہے اور تحقیق سے چاہے یہ بات معلوم ہوگئی کہ دونوں گھر والدہ کی ملکیت ہیں لیکن والدہ نے اپنی زندگی میں دونوں بھائیوں کو دے کر اگر مالک و قابض نہیں بنایا صرف زبانی کہا تو زبانی کہنے کا اعتبار نہیں وہ دونوں مکان والدہ ہی کی ملکیت مانی جائے گی اور والدہ کے انتقال کے بعد دونوں مکان بھی تمام بہن بھائیوں میں شرعی طریقے پر تقسیم ہوگی خلاصہ یہ ہے کہ والدین کی متروکہ ملکیت کی تقسیم اگر شرعی طریقے پر نہ ہوئی ہو تو اب اس کی تقسیم شریعت کے مطابق کرلی جائے، شرعاً والدین مرحومین کا ترکہ ۹/سہام میں منقسم ہوگا دونوں بھائیوں کو دو دو (۲-۲) سہام اور ہر بہن کو ایک ایک (۱-۱) سہام مل جائے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند