• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 171702

    عنوان: تین بیٹے اور دو بیٹیوں میں وراثت كی تقسیم

    سوال: میرے والد صاحب پانچ بہن بھائی ہیں۔ ایک پھوپھو گوجرانوالہ میں رہتی ہیں۔ ایک پھوپھو کی شوہر سے علیحدگی ہو گئی تھی۔ اب ایک بہن اور تین بھائی اکٹھے دادا کے مکان میں رہتے ہیں۔ دادا کا 2010 میں انتقال ہو چکا ہے۔ ایک بھائی غیر شادی شدہ ہے۔ پھوپھو جو دادا کے مکان میں رہتی ہیں ان کی بھی کوئی اولاد نہیں ہے۔ دادا کے مکان کے اسّی نوے فیصد حصے پر دو بھائی اور ان کی اولاد رہائش پزیر ہیں۔ دادا کے علاوہ ان دو بھائیوں نے مکان کی تعمیر میں بھی زیادہ پیسے۔لگائے ہیں۔ اب مسلئہ یہ ہے کے دادا کے مکان میں وراثت کس طرح تقسیم ہوں۔ غیر شادی شدہ چچا(جن کا مکان کی تعمیر میں نہ ہونے کے برابر حصہ ہے) جب کبھی ناراض ہوں تو اپنے حصے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر ان کا حصہ دے دیں تو کھا پی کر پھر بھائیوں کے پاس ہی آ جا گے۔ تین بھائی اور ایک بہن مکان سے نفع اٹھا رہے ہیں۔ 1۔ گوجرانوالہ والی بہن کو وراثت کے مکان سے کس طرح حصہ دیں۔ 2۔ میرے والد صاحب کے ذمہ گوجرانوالہ والی بہن کا کتنا حصہ آ گا۔ مکان کی موجودہ قیمت تقریبا 4500000 سے 5000000 لاکھ ہے۔

    جواب نمبر: 171702

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:938-101T/D=12/1440

    صورت مسئولہ میں اگر دادا کے ورثاء میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں باحیات ہیں، دادا کی اہلیہ باحیات نہیں ہیں تو دادا مرحوم کا ترکہ بشمول مکان آٹھ حصوں میں تقسیم ہوگا، جس میں سے دو دو حصے تینوں بیٹوں میں سے ہرایک کو اور ایک ایک حصہ دونوں بیٹیوں میں سے ہرایک کو ملے گا، دادا کے مکان کی تعمیر میں دو بھائیوں نے اگر پیسہ دادا کی حیات ہی میں لگایا تھا اور پیسہ لگاتے وقت قرض وغیرہ کی کوئی صراحت نہیں کی تھی تو یہ دونوں بھائیوں کی طرف سے تبرع سمجھا جائے گا، لہٰذا دادا کے انتقال کے بعد گھر کی تقسیم کے وقت دونوں بھائیوں کی لگائی رقم کا الگ سے حساب نہیں ہوگا اور اگر انتقال کے بعد پیسہ لگایا تھا، تو گھر کی مجموعی مالیت لگاکر پہلے دونوں بھائیوں کی لگائی ہوئی رقم الگ نوٹ کرلی جائے، پھر مابقیہ قیمت مذکورہ تفصیل کے مطابق تقسیم کرلی جائے، خواہ رقم کی شکل میں یا مکان کی شکل میں جس طرح باہمی رضامندی سے اتفاق ہوجائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند